میں ہر کہانی ایک ہی نشست میں لکھتا ہوں، اتنے ہی وقت میں، جتنا آپ اسے پڑھنے میں صرف کرتے ہیں، بلا سوچ بچار لکھتا ہوں، کوئی یاد سوچ کا در کھولتی ہےتو لکھ دیتا ہوں، ہر کہانی کے آپ تک پہنچ جانے کے بعد یادوں کے بہت سارے اور دریچے کھلتے ہیں اور پھر سوچتا ہوں کہ
لکھی گئی کہانی تو ادھوری رہی بہت کچھ تو لکھا ہی نہیں گیا، لیکن دوسری جانب شعوری اور غیر شعوری طور پر یہ بھی سمجھتا ہوں کہ کہانیاں ادھوری ہی رہنی چاہئیں ، کہانی مکمل ہوجائے تو وہ کہانی نہیں تارخ بن جاتی ہے۔ لائل پور جو اب فیصل آباد بنا دیا گیا ہے اپنے سینے میں مزدور جدوجہد کی مکمل تاریخ چھپائے ہوئے ہے، ادب و ثقافت کی ترویج اور سیاست میں لائلپوریوں کا نمایاں کردار رہا،ملک میں عوام راج لانے کی جستجو لے کر لائل پور سے آنے والا حفیظ احمد فلمی کہانیاں لکھنے لاہور نہیں آیا تھا، وہ جب لاہور آیا اس وقت لاہور انقلابی سوچ رکھنے والے، دانشوروں، مزدوروں، شاعروں، ادیبوں اور سیاسی کارکنوں کا گڑھ بن چکا تھا، لائل پور بنیادی طور پر مزدوروں کا شہر ہے،سماج کو بدلنے کی آرزو رکھنے والے بے شمار اور نوجوان بھی لاہور پہنچے تھے، جیسے ایک مزدور کابیٹا فضل حسین راہی، جو پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر پنجاب اسمبلی کا ممبر منتخب ہو گیا تھا اور اسمبلی اجلاسوں میں پیشہ ور وڈیروں کیلئے
چیلنج بن گیا تھا، حفیظ احمد اور فضل حسین راہی لاہور آنے سے پہلے لائل پور میں چائے کے کھوکھے چلایا کرتے تھے،لائل پور کے رانا شمیم احمد خان بھی پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر بن گئے تھے، مال روڈ پر ان کی سرکاری رہائش گاہ بے گھر انقلابیوں کے رات کو سونے کا ٹھکانہ بن چکی تھی اداکار خالد سلیم موٹا اور فلمی صحافی زاہد عکاسی بھی رات یہیں بسر کیا کرتے تھے، طالبعلم راہنما ریاض شاہد میں بھی بہت کرنٹ تھا، لاہور کے پاک ٹی ہاؤس کی طرح لائل پور میں بھائی فضل کا ہوٹل فقرے انقلابیوں کی آماجگاہ تھا، جہاں ملکی اور عالمی سیاست سمیت ہر موضوع پر بحث مباحثے ہوتے تھے، بھائی فضل خود انقلابی تھا اور بہت سے کنگلے دانشوروں کو مفت یا ادھار کھانا بھی کھلا دیا کرتا تھا، میں خود بھی بھائی فضل کے ہوٹل میں جاتا رہا ہوں، میری اپنی زندگی کی کہانی کا ایک پہلو اس ہوٹل سے جڑا ہوا ہے، رانا ثناء اللہ سمیت مسلم لیگ ن کے کئی موجودہ لیڈر بھی کبھی لائل پور کے انقلابی ہوا کرتے تھے، لیکن ایسے لوگوں کی تعداد ایک فیصد سے بھی کم ہے جنہوں کے اپنے نظریہ یا کمٹمنٹ سے ہٹ کر