Saturday 24 August 2013

ایک کامیاب رائٹر کی عمر بھر کی کمائی (پارٹ2)

میں ہر کہانی ایک ہی نشست میں لکھتا ہوں، اتنے ہی وقت میں، جتنا آپ اسے پڑھنے میں صرف کرتے ہیں، بلا سوچ بچار لکھتا ہوں، کوئی یاد سوچ کا در کھولتی ہےتو لکھ دیتا ہوں، ہر کہانی کے آپ تک پہنچ جانے کے بعد یادوں کے بہت سارے اور دریچے کھلتے ہیں اور پھر سوچتا ہوں کہ

لکھی گئی کہانی تو ادھوری رہی بہت کچھ تو لکھا ہی نہیں گیا، لیکن دوسری جانب شعوری اور غیر شعوری طور پر یہ بھی سمجھتا ہوں کہ کہانیاں ادھوری ہی رہنی چاہئیں ، کہانی مکمل ہوجائے تو وہ کہانی نہیں تارخ بن جاتی ہے۔ لائل پور جو اب فیصل آباد بنا دیا گیا ہے اپنے سینے میں مزدور جدوجہد کی مکمل تاریخ چھپائے ہوئے ہے، ادب و ثقافت کی ترویج اور سیاست میں لائلپوریوں کا نمایاں کردار رہا،ملک میں عوام راج لانے کی جستجو لے کر لائل پور سے آنے والا حفیظ احمد فلمی کہانیاں لکھنے لاہور نہیں آیا تھا، وہ جب لاہور آیا اس وقت لاہور انقلابی سوچ رکھنے والے، دانشوروں، مزدوروں، شاعروں، ادیبوں اور سیاسی کارکنوں کا گڑھ بن چکا تھا، لائل پور بنیادی طور پر مزدوروں کا شہر ہے،سماج کو بدلنے کی آرزو رکھنے والے بے شمار اور نوجوان بھی لاہور پہنچے تھے، جیسے ایک مزدور کابیٹا فضل حسین راہی، جو پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر پنجاب اسمبلی کا ممبر منتخب ہو گیا تھا اور اسمبلی اجلاسوں میں پیشہ ور وڈیروں کیلئے

چیلنج بن گیا تھا، حفیظ احمد اور فضل حسین راہی لاہور آنے سے پہلے لائل پور میں چائے کے کھوکھے چلایا کرتے تھے،لائل پور کے رانا شمیم احمد خان بھی پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر بن گئے تھے، مال روڈ پر ان کی سرکاری رہائش گاہ بے گھر انقلابیوں کے رات کو سونے کا ٹھکانہ بن چکی تھی اداکار خالد سلیم موٹا اور فلمی صحافی زاہد عکاسی بھی رات یہیں بسر کیا کرتے تھے، طالبعلم راہنما ریاض شاہد میں بھی بہت کرنٹ تھا، لاہور کے پاک ٹی ہاؤس کی طرح لائل پور میں بھائی فضل کا ہوٹل فقرے انقلابیوں کی آماجگاہ تھا، جہاں ملکی اور عالمی سیاست سمیت ہر موضوع پر بحث مباحثے ہوتے تھے، بھائی فضل خود انقلابی تھا اور بہت سے کنگلے دانشوروں کو مفت یا ادھار کھانا بھی کھلا دیا کرتا تھا، میں خود بھی بھائی فضل کے ہوٹل میں جاتا رہا ہوں، میری اپنی زندگی کی کہانی کا ایک پہلو اس ہوٹل سے جڑا ہوا ہے، رانا ثناء اللہ سمیت مسلم لیگ ن کے کئی موجودہ لیڈر بھی کبھی لائل پور کے انقلابی ہوا کرتے تھے، لیکن ایسے لوگوں کی تعداد ایک فیصد سے بھی کم ہے جنہوں کے اپنے نظریہ یا کمٹمنٹ سے ہٹ کر

زندگی گزاری۔ اب پھر یاد کرتے ہیں حفیظ احمد کو جو تین سال پہلے بے شمار دوستوں کو اداس کر گیاحفیظ احمد جو جنگ آزادی اور انگریز کے باغیوں کا پرستار تھا۔ وہ بہت حساس بھی تھا، مارشل لاء دور میں نظریاتی لوگوں کے خفیہ مقامات پر خفیہ اجلاس ہوا کرتے تھے، خفیہ اسٹڈی سرکل بھی چلتے، پرو فیسر اعجاز الحسن بھی ہمارے کھاتے پیتے ساتھی تھے ، حفیظ ان کے گھر جاتا تو نوکر اسے دیکھ کر اندر چلا جاتا اور پھر واپس آ کر کہتا ،، میاں صاحب باہر گئے ہوئے ہیں،، یہ واردات جب کئی بار دہرائی گئی تو اس نے وہاں جانا ہی چھوڑ دیا ، ایک بار جب میں کچھ مہینوں کے لئے راولپنڈی میں تھا حفیظ میرے پاس آیا، میرے کمرے میں کئی لوگ پہلے سے بیٹھے تھے، میں نے اسے دوسرے روم میں بٹھا دیا، جب اسے اپنے کمرے میں لانے کے لئے اس روم میں گیا تو وہاں حفیظ کی جگہ حفیظ اکا رقعہ ملا، لکھا تھا، میرا خیال ہے میں غلط جگہ آ گیا ہوں۔ لائل پور میں جمخانہ کی طرز کا چناب کلب ہے، جو انگریز دور میں اشرافیہ کے لئے بنایا گیا ہوگا، قیام پاکستان کے بعد کالے انگریز اس پر قابض ہو گئے، لاہور جمخانہ میں بھی ابھی تک کوئی میلا آدمی داخل نہیں ہو سکتا، مخصوص مقامات ایسے بھی ہیں جہاں آپ ٹائی لگائے بغیر نہیں جا سکتے ، اگر آپ نے 30 ہزار کے جوتے اور ڈیڑھ لاکھ کا سوٹ پہنا ہو تو شاید یہ رعایت مل جائے کہ دربان آپ کو ادھار ٹائی فراہم کر دے، حفیظ احمد جب لائل پور میں محنت مزدوری کیا کرتا تھا تو اس نے چناب کلب میں جانے کا سپنا دیکھا، وہ اپنی اس بے بسی پر کڑھتا رہتا کہ چناب کلب کا دروازہ اس کے لئے کیوں نہیں کھلتا؟

لاہور منتقل ہوجانے کے بعد بھی یہ سوال اس کے سر پر سوار رہا، ظلم دا بدلہ اور دھرتی دے لعل جیسی فلمیں لکھ کر وہ مشہور آدمی تو ہو گیا ، امیر آدمی نہ بن سکا، وہ اجلا لباس تو پہننے لگا، قیمتی پوشاک کبھی نہ خرید سکا، سفید پوشی اسے اس حالت میں لے گئی کہ اس کے لئے سانس لینا بھی دشوار ہوگیا، وہ اپنے گھر میں ، اپنے کمرے میں اکیلا تھا، وہ جو کبھی کامریڈز کی مجلسوں میں اتنا بولتا تھا، اتنا بولتا تھا کہ کسی دوسرے کو اپنی بات کرنے کا موقع ہی نہیں دیتا تھا، اب وہ اپنے آپ کے لئے بھی نہیں بول سکتا تھا، اس اکلاپے میں نہ جانے اس نے کتنے آنسو بہائے ہونگے، بیوی اور بچے اپنے اپنے کام کاج پر چلے جاتے اور اس کے ساتھ صرف آکسیجن سلنڈر رہ جاتا تھا، اس کی تنہائیوں کے ساتھی سگریٹ بھی ڈاکٹروں نے چھڑوا دیے تھے، میرے سمیت کل تین دوست تھے جو اسے ملنےچلےجاتے تھے، ایک دن میں اس کے گھر گیا اور اسکی بیوی کی اجازت سے اسے گاڑی میں بٹھا کر باہر لے گیا، وہ ایک گھنٹہ بغیر آکسیجن کے رہ سکتا تھا، مجھے ایک اسٹور پر جانا تھا، اسٹور سے باہر آیا تو حفیظ احمد کی حالت خراب ہو رہی تھی میں نے فورآ اسے گھر پہنچایا، پھر اس کا چھوٹا بھائی جو ڈاکٹر ہے لندن سے آ گیا، حفیظ بہت خوش ہوا، اس نے اپنے بھائی سے فرمائش کی کہ وہ اسے لائل پور لے جائے وہ اپنے تمام دوستوں سے ملنا چاہتا ہے،، ڈاکٹر بھائی نے جواب دیا کہ یہ خطرے سے خالی نہ ہوگا،،حفیظ نے کہا کہ وہ جانتا ہے، لیکن اس کی خواہش ہے کہ بھائی اسے چناب کلب میں کمرہ بک کرادے اور اس کے سارے سنگی اسے چناب کلب میں ملنے آئیں، بھائی نے حفیظ احمد کی یہ دیرینہ خواہش پوری کر دی تھی۔