Saturday 24 August 2013

مودودی اور بھٹی

یہ ساٹھ کی دہائی کے آخری سالوں کی بات ہے، مولانا مودودی کی رہائش ذیلدار پارک اچھرہ میں تھی، جماعت اسلامی کا ہیڈ آفس بھی اسی عمارت میں تھا، اب وہاں مودودی صاحب کی قبر ہے اور عمارت کا قبضہ جمعیت کے پاس ہے،ہمارا اسکول قریب ہی تھا،جب کوئی پیریڈ خالی ہوتا تو ہم اسکول سے باہر نکل آتے ،اس زمانے میں جماعت اسلامی
کے قیم اسلم سلیمی صاحب ہمارے محلے دار بھی تھے، میں کبھی کبھی ان سے ملنے جماعت کے آفس چلا جاتا، وہاں مجھے بہت سے لوگ ملتے جو مختلف اضلاع سے وہاں پیسے جمع کرانے آتے تھے، ابن صفی کے ناول پڑھ پڑھ کے طبیعت جاسوسانہ ہو چکی تھی، پتہ چلا کہ یہ پیسے چندے کے ہوتے ہیں جو جماعت کے ارکان اپنے اپنے مقامی امیر کو دیتے ہیں اور پھر یہ امیر یہ رقم مرکز میں جمع کرانے آتے ہیں، میں سوچتا کہ یہ مقامی امیر چندے کی رقوم خود کیوں نہیں کھا جاتے؟ اس سوال کا جواب حاصل کرنے ایک دن میں مودودی صاحب کے کمرے میں گھس گیا،اس کمرے کا دروازہ عمارت کے صحن کی جانب کھلتا تھا ، دس بائی دس کا یہ کمرہ مودودی صاحب کی خواب گاہ ہی نہیں آرام گاہ اور سٹدی روم بھی تھا، چھوٹی سی چار پائی کے نیچے صاف ستھرا پان دان پڑا تھا ، ایک کرسی اور کتابوں کی ایک الماری،’’مولانا۔آپ کی جماعت میں لوگ ایماندار کیوں ہیں؟ یہ ہر ماہ یہاں چندہ جمع کرانے آ جاتے ہیں، انکی اپنی بھی تو ضرورتیں ہونگی، جو وہ اس رقم سے پوری کر سکتے ہیں‘‘ ۔۔۔۔مولانا نے میرے اس بے تکے سوال کا جواب دینا گوارا نہ کیا ، اپنے تکیے کے نیچے ہاتھ گھمایا اور ایک روپے کا سکہ میرے ہاتھ میں دیتے ہوئے، اشارہ کیا کہ اب دفع ہو جاؤ، یہ وہ زمانہ تھا جب ہمارا جیب خرچ چار آنے تھا۔۔۔۔۔ کچھ دن بعد میں پھر مودودی صاحب کے پاس چلا گیا، اس سے پہلے کہ میں انہیں سلام کرتا انہوں نے تکیے کے نیچے سے ایک روپے والا سکہ مجھے پھر تھما دیا ،میں خاموشی سے باہر نکل گیا۔۔ یہ واردات چلی کافی عرصہ تک ۔۔۔۔پھر کئی سال بعد۔۔۔۔غالبآ انیس سو بہتر میں، فلموں کی کہانیاں لکھنے کا سودا دماغ میں سما گیا، عنایت حسین بھٹی کی’ظلم دا بدلہ‘ سمیت کئی فلمیں ہٹ ہو چکی تھیں، میری ان سے ملاقات ان کے ایک سابق ڈرائیور شوکت کشمیری کی وساطت سے ہوئی تھی، شوکت کشمیری آجکل ن لیگ میں ہے اور میاں صاحبان نے اسے لاہور کی ایک فروٹ منڈی کا ایڈ منسٹریٹر لگا رکھا ہے، وہ مجھ سے ناراض ہے کہ میں اسکی شان و شوکت دیکھنے فروٹ منڈی کیوں نہیں گیا،، شوکت تھیٹر میں عنایت حسین بھٹی کے ساتھ گایا بھی کرتا تھا ، لیکن وہ زیادہ عاشق تھاعالم لوہار کا ، ایک دن میں عنایت حسین بھٹی کے گھر ان کے پاس بیٹھا تھا کہ اچانک انہوں نے انکشاف کیا ’’ میں ایک سیاسی پارٹی بنانا چاہتا ہوں‘‘ دلیل یہ دی کہ ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی بائیں بازو کی انتہا پسند پارٹی ہے۔۔ اور دوسری جانب جماعت اسلامی دائیں بازو کی انتہا پسند ’’ میں ایک ایسی پارٹی بناؤں گا جو اعتدال پسند ہو‘‘عنایت حسین بھٹی نے مجھ سے سوال کیا ’’ کیا آپ میری ذوالفقار علی بھٹو اور مولانا مودودی سے ملاقات کرا سکتے ہیں‘‘‘میں نے جواب دیا’’ بھٹو تک تو میری پہنچ نہیں ، مولانا سے ملوا سکتا ہوں‘‘ میں اگلے ہی دن مولانا کے پاس پہنچ گیا،، ایک عرصہ گزر جانے کے باوجود وہ مجھے بھولے نہیں تھے ، اس سے پہلے کہ وہ ایک روپے کا سکہ نکالنے کے لئے تکیے کے نیچے ہاتھ گھماتے،، میں نے مدعا بیان کر دیا’’’ مولانا، ایک آرٹسٹ ہیں عنایت حسین بھٹی، بہت اچھے اور مشہور گلوکار بھی ہیں، وہ آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔۔۔ بستر پر لیٹے ہوئے مولانا نے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ میں اپنا کان ان کے قریب کروں۔۔ ’’رات کو لائیے گا‘‘ ’’رات کو کیوں مولانا‘‘
’’دن میں لائے تو لوگ کہیں گے،، اب مولانا سے ملنے کنجر بھی آتے ہیں‘‘ میں نے بھٹی صاحب کو مولانا کے ریمارکس تو نہیں پہنچائے، رات کے وقت انکی مولانا سے ملاقات ضرور کرادی ، اور اس ملاقات میں کیا ہوا یہ مجھے معلوم نہیں ، کیونکہ میں اس کے ساتھ نہیں بیٹھا تھا۔