Wednesday 28 August 2013

ایک صحافی جو دشمنوں کی تلاش میں رہتا تھا

اپنے محسن عباس اطہر کی کچھ تلخ و شیریں یادیں، کچھ باتیں


یہ ہیں شاہ جی،کتنے

 ہیںCute

یہ جملہ نیر عباسی نے( جو اب نئیر محمود ہیں) ایک دن روزنامہ آزاد کی راہداری سے گزرتے عباس اطہر کو دیکھ کر کہا تھا، میں نے نئیر کے کمنٹس سن کر عباس اطہر کو غور سے دیکھا، چھریرے بدن کا تیس پنتیس سال کا آدمی، جس کے بالوں کی ایک لٹ سفید تھی، جو چہرے مہرے سے شاعر یا پینٹر لگتا تھا، وہ دوپہر اور شام کے درمیان آفس آتا، اس کی پہلی ملاقات

عزیز صاحب سے ہوتی جو روزنامہ آزاد کے آرٹ ایڈیٹر تھے، رات دو بجے آؤٹ ہونے والے اخبار کی لے آؤٹ پر کام دن ہی میں شروع کر دیا جاتا ، پھر /UPDATED/ LATEST خبروں پر توجہ دی جاتی، جیسے جیسے خبریں ڈیویلپ ہوتیں، اگلے دن کے اخبار کی لے آؤٹ بھی تبدیل ہوتی رہتی، میں نے عباس اطہر کے سوا دوسرا کوئی نیوز ایڈیٹر نہیں دیکھا جو اپنے ہاتھوں سے نکالے گئے اخبار سے محبوبہ کی طرح پیار کرتا ہو، اپنی اس محبوبہ کو اپنے ہاتھوں سےسجانے کا یہ ہنر، یہ وصف میں نے شاہ جی سے ہی سیکھا ۔ اور جب تک پرنٹ میڈیا میں رہا اپنے تیار کردہ اخبار کی محبت میں ہی گرفتار رہا، جنگ لاہور کا ایڈیٹر بن جانے کے باوجود میں نے کمرے اور کرسی پر بیٹھنے کی بجائے نیوز روم ہی کو ترجیح دی۔ عباس اطہر 1964 میں ریلوے کی ملازمت چھوڑ کر لاہور سے کراچی پہنچے تھے، جہاں نذیر ناجی پہلے سے موجود تھے اور روزنامہ ،،انجام،، میں پروف ریڈر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے، عباس اطہر نے ،،انجام،، کے نیوز ڈیسک پر نظام صدیقی کی ماتحتی میں صحافت شروع کی۔ پھر لاہور میں آمریت کے دور میں اپنے نکالے جانے تک پروگریسو پیپرز لمیٹڈ کے ،، روزنامہ امروز،، سے وابستہ رہے، ،،امروز کو سرخوں اور ترقی پسندوں کا اخبار کہا جاتا تھا، لیفٹ کے بڑے بڑے نام اس ادارے سے وابستہ رہے۔ 
1970 میں شاہ جی عباس اطہر اس سرخ قبیلے میں شامل تھے جسے ترقی پسند اور لیفٹسٹ ہونے کے الزام میں روزنامہ امروز اور پاکستان ٹائمز سے نکالا گیا ، اس قبیلے کے دوسرے افراد میں آئی اے رحمان، عبدللہ ملک اور حمید اختر نمایاں تھے، ان لوگوں نے اپنے اپنے گھر کی جمع پونجی کے ساتھ اپنا اخبار نکالا،، روزنامہ آزاد،، یہ اخبار پہلی بار مجلس احرار نے اپنے نظریات کے پھیلاؤ کے لئے نکالا تھا، 1970 میں اس کا ڈیکلریشن شیخ حسام الدین کے معذور بیٹے شیخ ریاض الدین کے نام تھا، میں نے بھی صحافت اسی اخبار سے شروع کی، پروفیسر ایرک سپرین کی سفارش پر آئی اے رحمان نے مجھے جاب دی تھی،،، ادھر ہم ادھر تم،، والی سرخی عباس اطہر نے نکالی تھی، یہ عباس اطہر کی شاعرانہ اختراع تھی جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہ تھا، آزاد اخبار کی اس شہہ سرخی کو بھٹو مخالفین نے تاریخ کا حصہ بنا دیا، پاکستان کی ساری تاریخ اسی طرح لکھی گئی، یہی وجہ ہے کہ ہم آج تک دنیا کی تاریخ کا حصہ نہیں بن سکے، آزاد اخبار پر شیخ مجیب الرحمان کی حمایت کی چھاپ لگ گئی اور پاکستان کے دو لخت ہوتے ہی یہ اخبار مالی مسائل اور تنخواہوں کی عدم ادائیگی کے باعث بند ہو گیا،چند ماہ بعد عباس اطہر بھٹو صاحب کے ذاتی اخبارمساوات میں چلے گئے، پھر ایک وقت آیا اور وہ ایڈیٹر بھی بن گئے، عباس اطہر نے اقتدار ملتے ہی اپنے مخالف ٹولے کے سارے صحافی فارغ کر دیے، بہت سارے صحافیوں کی بے روزگاری کوئی معمولی بات نہ تھی، ان معطلیوں کے خلاف مہم چلی، رضاکارانہ گرفتاریاں دی گئیں، صحافیوں کی یونینز شاہ جی کے سامنے سینہ سپر ہوئیں، مگر شاہ جی پر کوئی اثر نہ ہوا، شاہ جی خود دشمن بنا کر جینے والےآدمی تھے، کون دوست ہے اور کون دشمن ؟ یہ فیصلے وہ رات دیر گئے کیا کرتے تھے، صبح جاگنے کے بعد وہ اپنے فیصلے یاد بھی رکھا کرتے تھے، لاہور کے صحافی دو گروپوں میں بٹ گئے تھے، انٹی عباس اطہر، پرو عباس اطہر، شاہ جی کے ساتھیوں میں ضیاء الاسلام انصاری جیسے لوگ تھے اور منہاج برنا کو وہ اپنا دشمن گردانتے تھے، جب عباس اطہر نے مساوات سے بندے نکالے تو حسین نقی نے ان سے کہا کہ تم نے صحافیوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگ لئے ہیں ، اگلے سال پریس کلب کے الیکشن ہوئے تو صدارت کے عہدے پر شاہ جی اور حسین نقی آمنے سامنے تھے، عباس اطہر نے مقابلہ جیت لینے کے بعد حسین نقی سے کہا،،، نقی، آج میں نے اپنے خون آلودہ ہاتھ تمہیں شکست دے کر صاف کر لئے ہیں۔شاہ جی عباس اطہر پر الزام رہا کہ وہ رائٹ ونگ کے بدبودار لوگوں کی سرپرستی کرتے ہیں، انہیں جب بھی کوئی موقع ملا یا کسی اخباری ادارے میں اقتدار ملا انہوں نے صحافت میں ملائیت کو فروغ دیا، یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے، شاہ جی کے نوازے ہوئے کئی نظریاتی مولوی صحافیوں نے صحافت میں اپنی جڑیں کچھ ایسی مضبوط کیں کہ اس کے اثرات نے کئی منفی رحجانات کو جنم دیا اور صحافت سے غیر جانبداری اور روشن خیالی کو معدوم کیا۔۔۔ دوسری جانب عباس اطہر نے بے شمار روشن خیالوں کی بھی حوصلہ افزائی کی اور انہیں سہارا فراہم کرتے رہے، در اصل وہ لیفٹ رائیٹ کی بجائے ذاتی وفاداری کے قائل تھے، کئی وفادار انہوں نے شک شبہے کی بنیاد پر ضائع بھی کئے، ضیاء الحق کے دور میں آزادی صحافت اور تحفظ روزگار کی مہم چلی تو شاہ جی ڈکٹیٹر کے حواریوں کے ساتھ محض اس لئے کھڑے ہو گئے کہ وہ منہاج برنا کے خلاف تھے، اور ان کا کہنا تھا کہ وہ منہاج برنا کو ماؤژے تنگ بنتے نہیں دیکھ سکتے، عباس اطہر بھٹو کے با اعتماد صحافی ہونے کے باوجود جدوجہد کے میدان سے باہر تھے، بھٹو صاحب نے جیل میں لکھی گئی اپنی پہلی کتاب ، اگر مجھے قتل کر دیا گیا ،، کا انگریزی مسودہ اشاعت کے لئے عباس اطہر ہی کو بھجوایا تھا، مخبری پر شاہ جی مظفر شیخ اور خواجہ نذیر سمیت پکڑے گئے، ان لوگوں کو جیلوں اور شاہی قلعے کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں، لیکن ضیاء الحق کے ساتھی ٹولے کے باعث وہ ضمانتوں پر رہا ہو کر از ضود ملک بدر ہوگئے، کئی سال کی اس ملک بدری کے دوران شاہ جی نیویارک کی سڑکوں پر لیموزین چلاتے رہے، عباس اطہر پاکستان میں جدید آزاد شاعری کے بانیوں میں بھی شمار ہوتے ہیں، افتخار عارف شاعری کی دنیا میں ان کے بہترین دوست تھے، شاہ جی کی شاعری کی کئی کتابیں بھی شائع ہو چکی ہیں، اس زمانے میں ان کی ایک نظم اکثر بس اسٹاپوں پر لکھی ہوئی ملتی تھی، بس اسٹاپوں پر اس لئے کہ بھونڈی کرنے والے عاشقوں کے ہیڈ کوارٹر بس اسٹاپ ہی ہوا کرتے تھے،شاہ جی کی اس نطم کا ایک آدھ شعر مجھے یاد ہے،


اے نیک دل لڑکیو-
آرزو کی نمائش سے گزرو تو
چاروں طرف دیکھنا
اور دعا مانگنا
بیمار بچوں کی ماؤں کے لئے
قیدیوں کے لئے، ناداروں کے لئے

روزنامہ آزاد کی بندش کے بعد جب عباس اطہر مساوات میں چلے گئے تو میں ان کے پاس ملازمت کیلئے گیا، انہوں نے صاف صاف کہا کہ بندے نکالنے کے باعث ان کے ہاتھ بندھ گئے ہیں اور وہ اس پوزیشن میں نہیں کہ کوئی نئی اپوائنٹمنٹ کر سکیں، 1974 کے شروع میں انہوں نے مجھے کراچی میں ملازمت کی پیشکش کی، میں نے ہاں کہہ دی، عباس اطہر کراچی سے مساوات کے اجراء کے لئے لاہور سے جو ٹیم لے کر گئے اس میں میں بھی شامل ہو گیا، اس وقت شوکت صدیقی مساوات کے گروپ ایڈیٹر بن چکے تھے، مساوات کراچی کی ٹیم میں خالد علیگ جیسے بڑے قد کے لوگ شریک تھے، عنایت حسین چیف رپورٹر تھے، آغا مسعود حسین، شبر اعظمی بھی وہاں میرے دوست بنے، احفاظ الرحمان میگزین ایڈیٹر تھے، میں انہی کے شعبے میں ان کا ماتحت تھا، مہناز بھی میگزین سیکشن میں ہماری کولیگ تھیں، ابراہیم جلیس بھی کالم لکھا کرتے تھے.روزنامہ مساوات کراچی سے نکلا تو اسے خوب پذیرائی ملی، عباس اطہر خوش تھے، وہ اخبار کی کامیابی کی خبر فون پر لاہور کے ساتھیوں کو سنا رہے تھے،، عباس اطہر فون پر یہ بھی کہہ رہے تھے، اور تو اور خاور نعیم ہاشمی نے بھی کمال کر دیا، وہ ڈیسک پر بھی کام کر لیتا ہے، سیاسی مضمون بھی لکھ لیتا ہے اور فلمی کالم بھی لکھ رہا ہے۔۔ عباس اطہر کی میرے لئے یہ تحسین میرے روشن مستقبل کی نوید تھی، وہ تو لاہور واپس چلے گئے، مگر مجھے بڑے حوصلے دے گئے۔کچھ مہینوں بعد مجھے لاہور یاد آنے لگا،شوکت صدیقی صاحب مجھے کراچی میں ہی رکھنا چاہتے تھے، بہت منت سماجت کے بعد وہ اس شرط پرمیرے لاہور تبادلے پر رضامند ہوئے کہ میں ہر ہفتے کراچی کے لئے لاہور کی ڈائری لکھا کروں گا، لاہور واپس آکر میں شوکت صاحب کی شرط پوری نہ کر سکا، شوکت صاحب مجھ پر بہت برہم تھے، ایک دن انہوں نے عباس اطہر کو فون پر حکم دیا کہ خاور کو واپس کراچی بھجوا دو، اسے ٹرین پر بھجوانا، جب ٹرین ملتان اسٹیشن پر رکے تو مجھے بتا دینا، عباس اطہر نے حیرانی سے پوچھا ،، ٹرین ملتان رکنے پر آپ کیا کریں گے؟شوکت صدیقی صاحب نے جواب دیا، تب میں اسے ڈس مس کر دوں گا،
1974...لاہور میں میری پہلی ڈیوٹی مساوات کے ویکلی جریدے ،، نصرت،، میں فیچر رائٹر کے طور پر لگی، خلیفہ ہارون رشید مجھ سے پہلے ،،نصرت،، میں موجود تھا، ایک دن میں بہت ذہنی دباؤ میں تھا، دفتر پہنچتے ہی ہارون رشید سے جھڑپ ہو گئی ، غصے کی حالت میں میری زبان پر گالیاں آ گئیں، خلیفہ ہارون رشید نے دھمکی دی کہ وہ عباس اطہر صاحب کو میری شکایت کرے گا،،،، میں نے عباس اطہر کو بھی گالیاں دے دیں، اگلے روز شاہ صاحب کے روبرو میری پیشی ہوئی، میں نے فرد جرم سنے بغیر ہی اعتراف جرم کر لیا، سزا کے طور پر مجھے نیوز روم مییں ٹرانسفر کر دیا گیا، عباس اطہر اس دن مجھے یہ سشا نہ سناتے تو میں کبھی کسی منزل تک نہیں پہنچ سکتا تھا، اس واقعہ کے دو چار دن بعد شاہ جی نے مجھے اپنے کمرے میں بلوایا تو ہارون رشید وہاں پہلے سے موجود تھا، ہم دونوں میں صلح کرائی گئی، شاہ جی نے مجھے کہا کہ ہارون آج تمہاری دعوت کرنا چاہتا ہے، میں رضامند ہو گیا، شام کے وقت ہارون مجھے پیدل پارک لگژری ہوٹل لے گیا ، اسی ہوٹل کی جگہ آج کل آواری ہوٹل قائم ہے، ہوٹل کے لان میں بیرا ہماری میز سجا رہا تھا کہ ہارون رشید کی کسی بات پر میرا دماغ پھر چل گیا، میں نے میز پر رکھا گلاس اس کے سر میں دے مارا اور وہاں سے اٹھ آیا، اگلے روز آ فس پہنچا تو شاہ صاحب باہر کھڑے مل گئے، مجھے دیکھ کر مسکرائے اور کہنے لگے، اوئے بد معاش۔ خلیفے کو تمہاری میزبانی کے لئے سو روپے میں نے اپنی جیب سے دیے تھے۔۔