Saturday 24 August 2013

کرائے کا مکان

لوک فنکار عالم لوہار اپنی ڈھیر ساری ’’بیگمات‘‘ کے ہمراہ موڑ سمن آباد پر اپنی زیر تکمیل فلم ’’مٹی دا باوا‘‘ کے ڈائریکٹر زرتاش کے بوسیدہ سے گھر میں رہائش پذیر تھے ، زرتاش کے دماغ میں کوئی نہ کوئی آئیڈیا گھومتا رہتا تھا، وہ تھوڑی سی جمع پونجی کے ساتھ کوئی بڑا کارنامہ انجام دینا چاہتا تھا ، وہ بزعم خود دانشور تھا ، اگر اس زمانے میں آج کا الیکٹرانک میڈیا ہوتا تو

وہ کم از کم ڈاکٹر شاہد مسعود سے زیادہ پاپولر ہوتا، ستر کی دہائی میں سب سے آسان کام تھا، اپنا ذاتی اخبار نکال لینا،، سو زرتاش نے ڈیکلریشن اپلائی کرکے عالم لوہار کے گھر کے باہر اخبار کا بورڈ آویزاں کر دیا،’’’ روزنامہ صنف نازک‘‘ یہ مشورہ اسے میں نے دیا تھا کہ ایک روزنامہ نکالا جائے جو صرف خواتین پڑھیں، اور جو اسٹاف رکھا جائے وہ بھی تمام کا تمام عورتوں پر مشتمل ہو، اس کا خیال تھا کہ میں اس سارے پروجیکٹ میں اس کے ساتھ رہوں گا،، لیکن میں اس سے زیادہ پکی گولیاں کھیلا ہوا تھا،، اس نے کئی اخباروں میں اسٹاف کے لئے اشتہارات دیے اور پھر خواتین کے انٹرویوز میں مصروف ہو گیا، عالم لوہار سے زرتاش کے پاس خواتین کی فراوانی شاید برداشت نہ ہو سکی اور انہوں نے مجھے کہنا شروع کر دیا کہ ان کے لئے کوئی نیا گھر تلاش کروں، عالم لوہار کے پاس پیسہ تو بہت تھا ، لیکن ان کاروزگار بنجاروں والا تھا، شا ید اسی لئے اپنا ذاتی گھر بنانے کا خیال ان کے دماغ میں نہ آیا ہوگا، وہ پورے پنجاب میں ہونے والے سالانہ میلوں میں اپنا تھیٹر لگاتے تھے، اور تھیٹر بھی عنایت حسین بھٹی کے تھیٹر کے سامنے،، اور دونوں میں گائیکی کا مقابلہ چلتا ساری ساری رات۔۔ اس زمانے میں ہزاروں کی کما ئی تھی ، نہ کوئی ٹیکس نہ کوئی پوچھ گچھ اور نہ کوئی اور جھمیلا، سرکس اور تھیٹروں کی کمائی بستر کے گدوں کے نیچے یا گھڑوں میں چھپائی جاتی تھی۔۔

ایک دن سمن آباد سے اچھرہ پیدل جاتے ہوئے۔ رسول پارک میں ایک مکان کے باہر ’’کرایہ کے لئے خالی ہے‘‘ کا بورڈ دیکھ کر میں رک گیا،،، پتہ چلا کہ اس کا مالک ساتھ والے گھر میں رہتا ہے۔۔۔ دروازے پر دستک دی تو ایک صاحب باہر تشریف لائے، علیک سلیک کے بعد انہوں نے بتایا کہ چار کمروں کے اس گھر کا کرایہ سو روپے ماہانہ ہے، اس زمانے میں اتنی گنجائش کا اچھا گھر ساتھ ، ستر روپے پر بھی مل جاتھا تھا ، میں اوکے کرکے چلا گیا عالم لوہار کے پاس۔۔عالم لوہار میرے ساتھ تھے ، میں نے دروازہ کھٹکھٹایا ، پھر وہی صاحب باہر تشریف لائے، ہم دونوں کو سر تا پاؤں بغور دیکھا اور پھر سوالیہ انداز میں کہنے لگے ’’’جی، فرمائیے‘‘میں نے کہا ’’ جی ابھی میں کرائے کے مکان کا پوچھ کر گیا تھا‘‘ ’’ مکان تو چڑھ گیا ہے‘‘میں حیرت سے بولا ’’ جناب ابھی پندرہ بیس منٹ پہلے آپ سے مل کر گیا ہوں‘‘اب عالم لوہار کی باری تھی ’’حا جی محمد عالم لوہار‘ تسیں مینوں پچھا نیاں؟ ’’ جی نئیں مالک مکان نے جواب دیا۔۔۔۔۔عالم لوہار نے سوال کیا ’’ تسیں ،ریڈ یو سندے او ‘‘ ’’ نہیں ‘‘عالم لوہار نے ملکہ برطانیہ کے بلاوے کی داستان چھیڑ دی،، عالم لوہار کی کہانی جاری تھی کہ مالک مکان مجھے ان سے دور لے گیا ’’’ بھائی جی میری جوان بیٹیاں ہیں ، یہ آگئے تو ساری ساری رات ڈھولک اور چمٹا بجے گا ، براہ کرم انہیں واپس لے جائیں ، میں آپ کو مکان کرائے پر نہیں دے سکتا‘‘‘آج عارف لوہار کو کہیں دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں ، کتنا کٹھن تھا اس کے بڑے باپ کا اس معاشرے میں جینا۔