Thursday 29 August 2013

ایک ادھار جو میں چکانا نہیں چاہتا

پروین ملک ادبی حلقوں میں ایک معتبر نام ہے، کبھی کبھی کسی تقریب میں ملاقات ہو جاتی ہے، ایک بار انہوں نے کہا تھا کہ وہ مجھ پر ایک خاکہ لکھیں گی ، اگر انہیں اس کے لئے وقت مل گیا تو یقینآ میرے لئے بہت بڑا اعزاز ہوگا، پروین ملک جرنلزم میں ماسٹرز کرنے کے بعد روزنامہ آزاد سے منسلک ہوئی تھیں،میں اس اخبار میں ان کا کولیگ تھا،پروگریسو خیالات کی حامل پروین ملک عورتوں کے حقوق اور سماجی مسائل پر روزانہ کالم لکھا کرتی تھیں، تعلق تھا پنجاب کے ایک زمیندار سیاسی
گھرانے سے، مہ ناز رحمان کی طرح پروین ملک بھی مجھے کاکا کہہ کر بلایا کرتی تھیں، احمد ندیم قاسمی ان کے پسندیدہ شاعر تھے، ایک بار ان کے گھر جانے کا اتفاق ہوا تو ان کے کمرے میں بیڈ روم کے ساتھ ٹیبل پر قاسمی صاحب کی تصویر دیکھی، وہ مجھے بڑی بہن کی طرح ڈیل کرتیں، میں ان دنوں روزانہ بچوں کے لئے کہانی لکھا کرتا تھا، وہ ہمیشہ اس حوالے سے میری حوصلہ افزائی کرتیں، پروین ملک کی ان کے یونیورسٹی فیلو مقبول سے شادی ہوئی، بعد ازاں وفاقی وزارت اطلاعات سے منسلک ہو گئیں، کئی برس تک ہفت روزہ پاک جمہوریت کی ادارت سنبھالی اور اب ریٹائرڈ ہو چکی ہیں، برسوں پہلے ان کا اکلوتا بیٹا اوائل عمری میں ہی چھت کے گر کر جان بحق ہو گیا تھا، اس سانحہ کے بعد وہ اندر سے کتنی ٹوٹ پھوٹ گئی ہونگی؟ میں یہ سوچ کر ہی لرز جاتا ہوں۔


ایک دن میں کالج میں پروفیسر امین مغل کا پیریڈ اٹینڈ کر رہا تھا کہ اچانک امین مغل صاحب نے مجھ سے متوجہ ہوتے ہوئے پوچھا تم نے فیس جمع کرادی؟ ,, نہیں، میرا جواب سن کر انہوں نے مجھے کلاس روم سے نکال دیا اور کہا اب فیس جمع کرانے کے بعد کلاس میں آنا، ایک ترقی پسند استاد کا یہ توہین آمیز رویہ میرے لئے انتہائی پریشان کن تھا، لیکن اب سوچتا ہوں کہ ایرک سپرین اور دیگر اساتذہ کرام کے ساتھ سرکاری نوکریوں سے نکالے گئے لیفٹ ونگ کے ان دانشوروں کے گھر بھی تو ہماری فیسوں سے ہی چلنے تھے، میں تو فیس کے روپے دوستوں کی ضیافت اور کلاس فیلوز کو ٹافیاں کھلانے میں اڑا چکا تھا لیکن اس میں امین مغل صاحب کا تو کوئی قصور نہ تھا، فیس ساٹھ روپے تھی، جرمانہ وغیرہ ڈال کر تقریبآ سو روپے ادا کرنا تھے، اس دن میں بہت چپ چپ رہا اور گھر جانے کی بجائے روزنامہ آزاد کے دفتر میں ہی بیٹھا رہا اور اپنی توہین پر کڑھتا رہا ، وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہوا، رات کا ایک بج رہا تھا،اچانک میرے دماغ میں پروین ملک کا نام گونجا اور میں نے انہیں فون کر دیا، پروین ملک نے دوسری گھنٹی پر ہی کال رسیو کرلی مجھے ایک سو روپے کی ضرورت ہے اور وہ بھی صبح آٹھ بجے سے پہلے پہلے پروین ملک نے پہلے تو کہا اس وقت بھلا میں کیسے آسکتی ہوں؟پھر ٹھوڑے توقف کے بعد بولیں اچھا، میں آتی ہوںرات دو بجے اخبار کی آخری کاپی پریس میں چلے جانےکے بعد آفس کے سب لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے اور میں وہیں کرسی پر بیٹھا پروین ملک کا منتظر رہا، علی الصبح چار بجے کے قریب ایک رکشہ لارنس روڈ پر روزنامہ آزاد کے آفس کے باہر رکا ، پروین ملک باہر نکلیں، مجھے دیکھ کر مسکرائیں ، کسی سوال جواب کے بغیر سو روپے کا نوٹ مجھے تھمایا اور واپس چلی گئیں۔۔