Wednesday 28 August 2013

عباس اطہر صاحب( 2)

شاہ جی اپنے ماتحتین کو کوئی نہ کوئی لقب دے دیا کرتےتھے ، اور وہ بندہ پورے شہر میں اسی لقب سے مشہور ہو جاتا،ہارون رشید کو خلیفہ کا خطاب ملا، علامہ صدیق اظہر کو،،الامہ،، زاہد عکاسی کو جاہل اکاسی، اسلم خان کو ،،چھرا ،، اوراعظم خلیل کو ،، جھوٹا پیغمبر،، بہت سے لوگوں کو ،، چیف۔۔۔۔۔۔۔۔ کہہ کر بھی پکارتے تھے،، انہیں اپنے عہدے اور اختیار کا آزادانہ استعمال خوب آتا تھا، میڈیا میں اور بھی کئی لوگوں کواختیار استعمال کرتے دیکھا ہے ،تعصب،دوست نوازی،حاکموں سے مفادات کےحصول، اور راتوں رات دولتمند بن جانےکی خواہش کےساتھ،۔۔عباس اطہر نے بھی طاقتوری کے جنون میں بہت کچھ غلط کیامگر دوسروں کے لئے،اپنے حواریوں کے لئے، اپنی چوہدراہٹ کے بھرم کیلئے، وہ از خود کبھی دولت،جائیداد اور بنک بیلنس بڑھانے کے خواہشمندنہ رہے، ہاں، ان کی رقابت حاصل کرکے بہت سارے دوسرے صحافی کرپٹ اور امیر کبیر ضرور ہوئے، عباس اطہر ان کا بڑا بیٹا تاری ان کی کئی بدنامیوں کا باعث بنا، شاہ جی نے اس کی ساری بد تمیزیاں برداشت کیں ،اسکی ناجائز خواہشیں بھی پوری کیں۔ 

1978میں کوڑے کھانے کے بعد جب مجھے رہائی ملی تو مال روڈ والے پرانے پریس کلب میں شاہ جی ملے، مجھے 786 ریسٹورنٹ میں لنچ کی دعوت دی، میں ان کے ساتھ چلا گیا، لنچ کے دوران شاہ جی نے بولنا شروع کیا،، دیکھو، تم جانتے ہو کہ جنرل ضیاء الحق ہماری مٹھی میں ہے، میں آج شام تک تمہیں کروڑ پتی بنا سکتا ہوں،لیکن تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ جبر کی جس دہلیز پر اب کھڑے ہو، وہاں سے کبھی ہٹنا نہیں، مجھے اس دن شاہ جی بہت اچھے لگے،، میں ڈکٹیٹر شپ کے خلاف جدوجہد میں منہاج برنا کے ساتھ کھڑا تھا، سات جیلیں اور شاہی قلعہ کی صعوبتیں برداشت کر لینے کے باوجود مجھ پر عباس اطہر کا بندہ ہونے کا الزام تھا، نثار عثمانی صاحب پوری اخباری برادری کیلئے محترم تھے،ایک مکمل غیر جانبدار، بہادر اور ایماندار صحافی، لیکن ان میں عباس اطہر والی ،،ایک خوبی،، بدرجہ اتم موجود تھی، انہیں بھی کاسہ لیساچھے لگتے تھے، تین آدمی جن میں سے دو کا تعلقDAWN سے تھا، میرے بارے میں عثمانی صاحب کے کان بھرتے رہتے ، عثمانی صاحب واقعی کانوں کے کچے تھے، انہیں میرے بارے میں اتنا بد ظن کر دیا گیا کہ پریس کلب کے انتخابات میں میرے مخالف جنرل ضیاء الحق کے حامی ٹولے دستوری گروپ کے امید وار کی الیکشن مہم عثمانی صاحب کی قیادت میں ڈان کے بیورو آفس سے چلائی گئی، عثمانی صاحب کے حواریوں کو تکلیف اس بات کی تھی کہ سول سوسائٹی، سیاسی اور سماجی حلقے مجھے تقاریب میں چیف گیسٹ کے طور پر بلوانے لگے تھے،روزانہ میری تصویریں اور خبریں چھپ رہی تھیں ، یہ سب ان لوگوں کے لئے ناقابل برداشت تھا۔

لفظوں کے جادوگر شاہ جی نوائے وقت میں تھے،جب نواز شریف کی اداروں کے ساتھ ٹسل چلی، صدر کو فارغ کیا، چیف جسٹس کو گھر بھجوایا، آرمی چیف کا بھی کام تمام ہونے کو جا رہا تھا، ملکی سیاست کے ان نازک ایام میں، میں نے جنگ میں بڑے سائز کے کیری کیچرز کے ساتھ ایک لفظ کی شہہ سرخی کا انداز اپنایا،، مثلآ ،، واپسی،،، اجازت،،،، ۔۔۔ ایک دن شاہ جی عباس اطہر کا فون آ گیا ،وہ کہہ رہے تھے ،، تم نے آج ہماری کلاس کرا دی ، مجید نظامی صاحب نے سب کو بلوا یا اور جنگ کی شہہ سرخیاں دکھاتے ہوئے پوچھا کہ ایسی ہیڈ لائنز ہم کیوں نہیں دے رہے؟ عباس اطہر نے بتایا کہ انہوں نے نظامی صاحب کو جواب دیا کہ جنگ یہ سرخیاں اس لئے دے رہا ہے کیونکہ ان کا مالک یہ اسٹائل افورڈ کر لیتا ہے اور اگر جنگ کی بجائے یہ انداز ہم اپناتے تو آپ کو پسند نہ آتا۔۔۔ یہ وسیع القلب عباس اطہر ہی تھے، جنہوں نے مخالف اخبار کے مالک کے میرے بارے تاثرات سے مجھے آگاہ کیا، کوئی اور ہوتا تو یقینآ یہ بات مجھ تک نہ پہنچتی۔

شاہ جی منفرد اور یکتا صحافی تو تھے ہی، لیکن اس سے بڑھ کر ایک درد دل رکھنے والے اعلی پایہ کے انسان بھی تھے، ان کے پاس کوئی کسی بھی کام کے لئے پہنچتا تو وہ بلا سوچے سمجھے مدد کے کو تیار ہو جاتے، دوسروں کے کام کرانے کے لئے خود ساتھ بھی چلے جاتے، دھڑے بازی کی عادت عمر کے ساتھ ساتھ چلی ، میں نے دو چار سال پہلے پریس کلب کے الیکشن والے دن انہیں ایک گروپ کی کنویسنگ کرتے ہوئے دیکھا تو عرض کیا،، شاہ جی ، آپ تمام صحافیوں کے لئے محترم ہیں۔ آپ کو ایک گروپ کے ساتھ کھڑے ہونا زیب نہیں دیتا،، شاہ جی نے مجھے کوئی جواب نہ دیا، وہ ایک جاگیردار کی طرح جینا چاہتے تھے اور انہوں نے اسی انداز میں ہی عمر تمام کی، مزے کی بات یہ ہے کہ شاہ جی کبھی کسی ایک دھڑے کے ساتھ نہ رہے، جو ان کے پاس پہلے چلا جاتا یا کسی کو مضبوط تصور کرتے اس کے ساتھ ہو جاتے، ایک دو امیدواروں کے نام خود دیتے، باقی کون ہیں؟ انہیں پتہ بھی نہ ہوتا، انہوں نے کبھی کسی کمزور کو اپنا دوست نہ بنایا، وہ طبعآ طاقتوروں کو پسند کرتے تھے چاہے وہ طاقتور شیطان ہی کیوں نہ ہو، وہ کمزوروں کو دھتکارتے بھی نہیں تھے، کمزور کی مدد انہیں اپنےطاقتور ہونے کا احساس دلاتی،کئی سال پہلے وفات پا جانے والی ان کی پہلی اہلیہ محترمہ نےان کا ہر حال میں ساتھ دیا، تین چار دہائیاں پہلے رات دیر گئے گھر جانے کے لئے انہوں نے ایک رکشہ ڈرائیور کی خدمات حاصل کر رکھی تھیں، کبھی فوٹو گرافر طاہر جیسے ان کے ماتحت اور کارندے موٹر سائیکل پر بٹھا کر گھر پہنچا دیتے، شاہ جی کے خدمت گاروں کو ان کی اہلیہ سے بہت کچھ سننا پڑتا،آئی جی سے سپاہی تک سب پولیس والوں کیلئے ان کے رتبے مرتبے کا علم ہونا ضروری ہوا کرتا تھا، ساری زندگی انہوں نے اپنے علاقے کا تھانیدار اپنی مرضی سے تعینات کرایا، انکی پہلی بیوی کے جنازے میں شریک ہونے کیلئے جب ہم تاج پورہ گئے تھے تو میلوں تک سیکڑوں پولیس والے راستوں پر تعینات تھے، اعلی پولیس حکام بھی تھے، اب جب ہم شاہ صاحب کے جنازے میں گئے تو واپسی پر منور انجم نے سوال کیا ،،کیا شاہ جی کا کوئی بیٹا صحافت میں نہیں ؟ جب اسے بتایا گیا کہ ،، نہیں،، تو برجستہ بولا۔۔۔ تھانیدار کو ایک بیٹے کو ضرور تھانیدار بنانا چاہئیے۔۔۔۔

( نوٹ۔۔۔ یادوں کا یہ سلسلہ جاری رہے گا، مگر آہستہ آہستہ