Saturday 31 August 2013

آغا مسعود کے ساتھ گزرا زمانہ

آغا مسعود حسین صاحب ایک ممتاز اور ہر دلعزیز صحافی ہیں، آج بھی بہت متحرک ، ایک بڑے اخبار میں ان کا کالم پڑھنے کو مل جاتا ہے ، کراچی کے ایک نجی ٹی وی پر ان کاحالات حاضرہ کا پروگرام بھی دیکھنے اور سننے کو مل جاتا ہے، یوں دوست دیرینہ سے آدھی ملاقات تو ہو ہی جاتی ہے، 40 سال پہلے مساوات کراچی میں ہم کولیگ تھے، آغا مسعود پولیٹیکل رپورٹنگ کیا کرتے، پیپلز پارٹی ان کی بیٹ تھی، خوش لباس بھی تھے ،خوش کلام بھی ، آغا صاحب اس دور میں بھی پی ٹی وی پر



سیاسی پروگرام کرتے تھے، وہ ٹی وی پروڈیوسرز اور دیگر ملازمین میں بہت مقبول تھے، ٹی وی اسٹیشن جاتے تو سبھی سے علیک سلیک کرتے ایک دو بار انہوں نے مجھے بھی سکرین پر آنے کا موقع دلوایا،ان دنوں کراچی یونیورسٹی کے ہاسٹل میں شبر اعظمی کا کمرہ میرا مستقل ٹھکانہ تھا، یونیورٹی میں جن لوگوں سے دوستی ہوئی ان میں عزیز میمن (ماروی میمن کے والد) انور سن رائے اور ایوب خاور بھی شامل تھے، انور سن رائے اور شبر نے یونیورسٹی کی شہرہ آفاق کنٹین پر کھانے کے دوران ایوب خاور سے میرا تعارف خاقان خاور (شاعر) کے نام سے کرا دیا، ایوب خاور جو خاقان خاور کی شاعری پڑھا کرتے تھے، مجھ سےگفتگو اسی حوالے سے کرتے ،میں کئی دن خاقان خاور بن کر ایکٹنگ کرتا رہا،لیکن مشکل یہ آن پڑی کہ مجھے ہر رات خاقان خاور کی شاعری پڑھنا پڑتی،ایک دن میں نے تنگ آ کر ایوب خاور کو اپنا اصل تعارف کرا ہی دیا،یوں ہماری دوستی کی باقاعدہ ابتدا ہوئی۔ مساوات آفس میں میری سب سے دوستی تھی، سب سے ہنسی مذاق چلتا ، سوائے شوکت صدیقی صاحب کے، آغا مسعود ان ساتھیوں میں تھے جن کے ساتھ بے تکلفی زیادہ تھی، کبھی کبھی ہم دونوں لنچ ایک ساتھ کیا کرتے تھے، ایک دن آغا صاحب فرمانے لگے ،، کیا تم بہت شاندار لنچ کرنا چاہوگے؟ نیکی اور پوچھ پوچھ۔ آغا صاحب مجھے سڑک پر لے آئے اور کہنے لگے کہ ٹیکسی کا کرایہ تم دوگے۔ ہم ٹیکسی پر کئی میل دور پتہ نہیں کس کے گھر گئے، وہاں پتہ چلا کہ اہل خانہ لنچ کر چکے ہیں اور ہمارے لئے کچھ بچا کھچا بھی نہیں پھر دوسرا گھر، پھر تیسرا گھر بن بلائے مہمانوں کے لئے کچھ نہیں تھا، میری نظریں ٹیکسی کے میٹر پر تھیں، سوئی پچاس روپے کراس کر رہی تھی، میںزچ ہونے لگا ، یا اللہ یہ کیا ہو رہا ہے ، ان دنوں تو دس روپےمیں کسی بھی بڑے ہوٹل میں بہت اچھا کھانا کھایا جا سکتا تھا، پہلے تین کا تو آغا صاحب نے نہیں بتایا تھا کہ وہ کون لوگ تھے جن کے گھر میں دو مہمانوں کے لئے کھانا بھی نہیں تھا، لیکن چوتھا ٹارگٹ تھا ایک صوبائی وزیر سعید حسن کا گھر، ہم دونوں ٹیکسی باہر ویٹنگ پر کھڑی کرکے گھر میں داخل ہوئے، بیگم صاحبہ ڈرائنگ روم میں بیٹھیں سگریٹ پی رہی تھیں، آغا صاحب اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ ان سے مخاطب ہوئے ادھر سے گزر رہے تھے، سوچا کیوں نہ کھانا آپ کے ساتھ کھایا جائے؟بیگم صاحبہ نے ایک کش حلق میں اتارتے ہوئے فرمایا،، دال چاول پکے ہیں ، آپ بیٹھیں میں نوکر کو کھانا لگانے کے لئے کہتی ہوں۔ میں آج تک نہیں سمجھ سکا کہ آغا مسعود نے میرے لئے اس شاندار لنچ کی ذحمت کیوں اٹھائی؟، دو گھنٹے سفر، اسی روپے ٹیکسی کا کرایہ اور دال چاول۔۔