Thursday 29 August 2013

نجمہ رومانی


وہ واقعی بہت خوبصورت تھی ، شاعروں کو اکسانے والا سڈول بدن تھا اس کا ،.. مین مارکیٹ گلبرگ کے ہوٹل زنوبیز میں ڈانسر تھی، گھر تھا اس کا سمن آباد بسطامی روڈ کی ایک گلی میں ، شو بز کی دنیا میں رات کی ڈیوٹی کرنے والی عورتیں اور لڑکیاں عام طور پر سارا سارا دن سوتی ہیں اور شام ڈھلے جب آنکھ کھلتی ہے تو نہائے دھوئے بغیر اپنے شوہروں کو بھی چہرہ نہیں دکھاتیں ، لیکن نجمہ رومانی تھی دوپہر کو بھی نکھری صبح جیسی لگتی ،میں کراچی سے فلمی صحافت سیکھ کر لاہور واپس آیاتھا، میرا ایک دوست جانی جو نت نئی دریافتوں کا ماہر تھا ، مجھے پہلی بار اس کے گھر لے گیا ، اس کی فرمائش تھی کہ میں نجمہ رومانی کا انٹرویو اور تصویریں فلمی صفحے پر چھاپوں ، ایک دن میں فوٹو گرافر کے ساتھ اس کے گھر گیا، ہماری تواضع بہت لذیذ کھانے سے کی گئی ، ایسی ڈانسروں کے گھروں کا کھانا ہوتا ہی بہت مزیدار ہے, فوٹو گرافر تھا طاہر ، جو شکاری بھی بہت عمدہ تھا، اس نے نجمہ رومانی کے ایسے ایسے پوز بنوائے جو آج کل فیشن کے رسالوں میں عام نظر آتے ہیں۔۔ یہ انٹرویو اور تصویریں کیا شائع ہوئیں ، نجمہ کی ماں نے ہمیں آنکھ کا تارا بنا لیا، ان دنوں میرے اندر کئی انقلابات اور بغاوتیں چل رہی تھیں ،میں نے دوسرے تیسرے دن وہاں جانا شروع کر دیا، کھانے کے دوران دنیا جہان کی باتیں بھی ہوتیں اور چٹکلے بھی،، ایک دو گھنٹے سکون سے گزر جاتے ، اور میں پھر زندگی کی جنگ کے میدانوں کی جانب روانہ ہو جاتا،یہ میری زندگی کے مشکل دن تھے، پھر ایک دن۔میں دوپہر کے وقت نجمہ رومانی اور اس کی والدہ کے ساتھ ان کے ڈرائنگ روم میں بیٹھا تھا کہ نجمہ کے ایک بھائی نے اندر آ کر بتایا کہ باہر چار آدمی کھڑے ہیں جو کہتے ہیں کہ دبئی سے آئے ہیں، نجمہ کی ماں نے انہیں اندر بلوا لیا،، علیک سلیک کے بعد ایک آدمی بولا کہ وہ لاہور میں ہی رہتا ہے ، دوسرے تین لوگ اس کے دوست ہیں جو دبئی میں کاروبار کرتے ہیں اور یہ لوگ نجمہ کو پرفارمنس کے لئے دبئی لے جانا چاہتے ہیں ، چائے بسکٹ آ گئے ، باتو ں کے دوران لاہور والے نےکہا ’’دبئی سے آنے والے نجمہ کا ڈانس دیکھنا چاہتے ہیں‘‘ نجمہ کی ماں بولی’’ یہ لوگ رات کو ’’زنوبیز آجائیں‘‘ لاہوریے نے برجستہ کہا ’’ نہیں یہ لوگ اسی وقت دیکھنا چاہتے ہیں ، ہوٹل نہیں جائیں گے‘‘ گھر میں طبلہ باجہ تھا ، نہ بجانے والے،،،، نجمہ کی ماں نے اپنے چھوٹے بیٹے کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ فلاں جگہ سے طبلے والے کو اور دوسری جگہ سے باجے والے کو بلا لائے۔ ایک گانے والی کا بھی بندوبست کیا گیا،، یہ سب اہتمام ہونے میں دو گھنٹے لگ گئے۔ اسی دوران نجمہ رومانی بھی لباس تبدیل کرکے اور میک اپ کرکے آگئی۔ اور پھر مجرا شروع ہو گیا۔ اس نے کئی گانوں پر رقص کیا،، پرفارمنس کے دوران کئی بار نجمہ میرے قریب آئی اور معذرت خواہانہ انداز میں مجھ سے پوچھتی رہی ’’آپ مائنڈ تو نہیں کر رہے میں نے مائنڈ کیا کرنا تھا،، کبھی نجمہ کا ڈانس دیکھنے زنوبیز جانے کا اتفاق نہیں ہوا تھا، اس کی پرفارمنس پہلی بار دیکھ رہا تھا، رات ہوگئی تو نجمہ کی ماں نے مہمانوں سے درخواست کی کہ اب اس کی بیٹی کا ہوٹل جانے کا وقت ہو رہا ہے، محفل بر خواست ہوئی اور وہ چاروں رقص کی ستائش کرتے ہوئے واپس جانے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ، لاہوریے نے کہا کہ دبئی والوں نے اوکے کر دیا ہے اور اب وہ نجمہ اور اس کے سازندوں کو دبئی لے جانے کے انتظامات کریں گے، جاتے وقت ایک آدمی نے جیب سے سو کا نوٹ نکالا اور سازندوں کو تھما دیا۔ ان کے چلے جانے کے بعد نجمہ اور اس کی ماں بہت خوش تھیں اور میں اس یقین کے ساتھ ان سے واپسی کی اجازت لے رہا تھا کہ’ چارحرامی سو روپے میں چار گھنٹے مجرا سن گئے ۔