Saturday 24 August 2013

اے شاہ شکار پوری


SUNSET BOULEVARD
. یہ لاس اینجلس کی ایک معروف سڑک کا نام ہے جہاں بہت زیادہ معاوضہ لینے والے اداکاروں نے بنگلے بنا رکھے تھے . 1950 میں ہالی وڈ میں ایک فلم بنی تھی
GLORIA SWANSON
کہانی کچھ یوں تھی،، خاموش فلموں کے دور کی ایک پاپولر ہیروئن مقبولیت اس وقت ختم ہوجاتی ہے ،جب
بولتی فلمیں بننے لگتی ہیں، گلوریا 50 برس کی ہو جاتی ہے تو اسے اپنے زمانے کا ایک سکرین رائٹرمل جاتا ہے ، وہ اس سے پوچھتی ہے ،،کیا میرا گزرا ہوا زمانہ واپس آ سکتا ہے،وہ پھر ماضی کی طرح شوٹنگز کے لئے اسٹوڈیوز جانا چاہتی ہے، وہ اپنے ارد گرد پھر ہجوم عاشقاں دیکھنا چاہتی ہے، JOE جو خود بھی خوابوں کی دنیا میں جی رہا ہوتا ہے، YES کہہ کر اسے ، سن سیٹ بلیوارڈ ، کے بنگلے سے ہالی وڈ لے جاتا ہے۔ یہ تمہید اس لئے باندھی کہ اس کہانی جیسے کئی آغاز اور انجام پاکستان میں بھی دیکھے گئے۔۔۔۔۔۔۔
اے شاہ شکارپوری 1947 میں لاہور آنے سے قبل بمبئے کی کئی بڑی فلموں میں کام کر چکے تھے، بمبئے میں کئی فلموں کی ڈائریکشن دی، کہانیاں اور گیت لکھے، ان کی لکھی ہوئی ایک فلم حقیقت 1956 میں ریلیز ہوئی تھی، وہ قیام پاکستان کے بعد لاہور میں بننے والی اردو پنجابی فلموں کے دوسرے بڑے کامیڈین تھے، دوسرے اس لئے کہ مقبولیت میں نمبر ون نذر تھے، پھر ظریف آیا تو اے شاہ تیسرے نمبر پر چلے گئے، انہوں نے کئی کامیاب فلموں کے ٹائٹل رول بھی کئے، جن میں. چاچا خوامخواہ، چغل خور اور مفت بر جیسی کامیاب فلمیں بھی شامل ہیں اے شاہ نے ہاشمی صاحب کی فلم جادوگر میں ہیرو کمال کے دوست کا کردار بھی خوب نبھایا تھا،60 اور70 کی دیائیوں میں اے شاہ کے سائز کی دو موٹی خواتین ،چن چن اور ٹن ٹن، بھی کامیڈی رول کیا کرتی تھیں اور اکثر ان کا جوڑ اےشاہ سے ہی پڑتا تھا، پھر وہ کامیڈینز کے باپ کے کرداروں میں نظر آنے لگے، پھر وقت پینترا بدلتا ہے تو رنگیلا، لہری اور منور ظریف جیسے کامیڈینز چھاجاتے ہیں، سلطان راہی فلم کی کامیابی کی ضمانت بن جاتا ہے، اےشاہ سمن آباد این بلاک میں کرائے کے گھر میں رہا کرتے تھے، اپنی کوئی اولاد نرینہ نہ تھی، امانت نامی ایک بچے کو گود لیا ہوا تھا جو بدقسمتی سے پڑھ نہیں سکا تھا، جب فلموں میں کام ملنا بند ہوگیا تو اے شاہ نے سمن آباد والا گھر خالی کر دیا اور نیا مزنگ کی بھٹو اسٹریٹ میں تھوڑے کرائے پر دو چھوٹے کمروں کا مکان لے لیا، منہ بھولے بیٹے امانت نے سمن آباد گول چکر کی نکڑ پر پتنگوں کی دکان کھول لی ، اے شاہ بھی صبح دس بجے کے قریب اس دکان پر آجاتے اور اسٹول پر بیٹھے اخبار پڑھتے رہتے، دو چار گاہک آجاتے تو وہ امانت سے پیسے لے کر سبزی، گوشت والے سے خریداری کرکے واپس گھر چلے جاتے، ڈوڑ اور پتنگ کا کاروبار تو اچھا تھا مگر یہ ہے سال میں دو تین مہینوں کا، آٹھ، نو مہینے دکان تقریبآ بند ہی رہتی، دو تین برس بعد اے شاہ نے بیمار رہنا شروع کر دیا، ان کے اعصاب جواب دینے لگے تھے، امانت کا کاروبار بھی مندے میں جانا شروع ہو گیا، آمدن کم ، دال روٹی کا خرچہ زیادہ، امانت نے آمدن بڑھانے کے لئے چھوٹی سی ملازمت بھی کر لی، میں ایک دن اے شاہ سے ملنے گیا تو دل بھر آیا، انہوں نے دوسروں کو پہچاننا بھی کم کر دیا تھا، عید الفطر کی آمد آمد تھی، میں مصطفی قریشی کے گھر بیٹھا تھا کہ اچانک ایک خیال میرے دماغ میں گونجا، قریشی صاحب آج اے شاہ شکار پوری کے گھر چلتے ہیں، ان کی کچھ مالی امداد کی جائے، نہ صرف قریشی صاحب بلکہ ان کی اہلیہ روبینہ بھی ساتھ چلنے کو تیار ہو گئیں، ہم نیا مزنگ کی بھٹو اسٹریٹ پہنچ گئے، اے شاہ کی اہلیہ نے دروازہ کھولا، ایک چار پائی کی گنجائش والے برآمدے کے سامنے دس بائی دس کا کمرہ تھا۔ اے شاہ تہہ بند کے اوپر ململ کا کرتہ پہنے چھوٹے سے اس کمرے کے درمیان کھڑے تھے، ہم تینوں کی آمد کا انہوں نےکوئی نوٹس نہیں لیا تھا، اے شاہ کی اہلیہ دوسرے اسی سائش کے کمرے کی دہلیز پر کھڑی تھیں ا ان کی آنکھیں نم تھیں ، اے شاہ نے اپنے بدن سے کرتہ اتارا ، اسے ایک کونے میں رکھا اور چند لمحوں بعد پھر پہن لیا، کپڑے اتارنے اور پھر پہننے کا یہ عمل وہ بار بار کر رہے تھے، روبینہ بھابی دوسرے کمرے میں چلی گئیں، قریشی صاحب نے سوالیہ انداز میں میری جانب دیکھا ۔ اے شاہ اس وقت فلم کے سیٹ پر ہیں اور شوٹنگ سے پہلے لباس تبدیل کر رہے ہیں۔