Thursday 29 August 2013

پاکستان اور کترینہ حسین

مجھے آج کی ڈاک میں ہفت روزہ ہم شہری ملا ہے، اس کے صفحات الٹے تو آکاش کے ایک مضمون پر نظر ٹک گئی, عنوان ہے ,,,پاکستان میں پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا میں کام کرنے والی لڑکیوں اور خواتین کو کن کن مسائل اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟ اس مضمون میں جرنلسٹ اور اینکر پرسن کترینہ حسین کو ڈیوٹی کے دوران پیش آنے والا ایک واقعہ بھی بیان کیا گیا ہے۔ کترینہ حسین واہ کینٹ میں ایک انتخابی جلسے کی رپورٹنگ کرنے گئیں تو
انہیں تیس کے قریب مردوں نے اپنے نرغے میں لے لیا،کترینہ حسین بتاتی ہیں کہ ان کے جسم کا ایک ایک حصہ ان مردوں کی گرفت میں تھا، ان تیس درندوں کی اس درندگی سے جلسے کے باقی شرکاء لذت اٹھا رہے تھے یہ واقعہ پیش آیا ایک طاقتور عورت کے ساتھ، اور اب آپ سوچئیے کہ ہمارے ، اسلامی جمہوریہ میں عام لڑکیوں اور خواتین سے کیا کیا نہیں ہوتا ہوگا؟ غریبوں کی بیٹیوں کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے ہمارا معاشرہ؟ یہ سب تو جنگل کی دنیا میں بھی نہیں ہوتا، اخبارات کے صفحات ہر روز بھرے ہوتے ہیں،، ضرورت مندوں ،،کے مختصر اشتہارات سے، ضرورت ہےایک لیڈی سیکرٹری کی جو خوش شکل ہو، غیر شادی شدہ کو ترجیح دی جائے گی، مارکیٹنگ کے لئے بھی پر کشش تنخواہ پر پڑھی لکھی لڑکیوں کو تلاش کیا جاتا ہے، نوکری ملنا آسان نہیں،مل جائے تو معجزہ ہی ہوتا ہے کہ اس لڑکی کے ساتھ کوئی ہاتھ نہ ہوا،لاہور شہر میں ،،شکروں،، نے ہزاروں دفاتر کھول رکھے ہیں، جہاں پڑھی لکھی ضرورت مند لڑکیوں کو بٹھا کر سادہ لوح لوگوں کو بڑی بڑی رقوم سے محروم کر دیا جاتا ہے، اور کئی لڑکیاں خود انہی راہوں پر چل پڑتی ہیں،،، شمار نجی تعلیمی اداروں میں بچوں سے فیسیں ہزاروں میں لی جااتی ہیں اور استانیوں کو تنخواہیں سیکڑوں میں دی جاتی ہیں، ہزار بارہ سو، پندرہ سو۔۔ بہت ساری این جی اوز میں جو ہوتا ہے، وہ ناقابل بیان ہے،چلیں، آپ کو اسی موضوع پر ایک کہانی سناتے ہیں جو زیادہ پرانی نہیں۔ ،،چندا اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ لاہور آئی تھی، تعلیم حاصل کرنے، گاؤں میں تھوڑی سی زمین تھی،ماں ہر مہینے تھوڑا بہت خرچہ بھجوا دیا کرتی تھی، لڑکی نے ڈگری حاصل کر نے کے بعد نوکری کی تلاش شروع کی، کئی جگہوں پر چھوٹی چھوٹی ملازمتیں کیں،این جی اوز کے لئے کام کیا،بھائی تھرڈ ائر میں پڑھ رہا تھا، اسی دوران اسے ایک اچھی سرکاری نوکری مل گئی،اسے اس کے خواب پورے پوتے دکھائی دے رہے تھے،، پہلے دن آفس جاتے ہوئے وہ بہت خوش تھی، دفتر گئی تو پہلا احساس یہ ہوا کہ لوگ اپنی نئی لولیگ کے نہیں ایک لڑکی کے منتظر تھے، باس نے پہلے ہی دن گھنٹوں بلا سبب سامنے بٹھائے رکھا،اس کے چہرے ، اس کے قد و قامت ، اس کے سراپا کی تعریف کی ،باس کے کمرے سے نکلی تو سب نگاہیں اس پر مرکوز تھیں، وہ محسوس کر رہی تھی جیسے چوری کرتی ہوئی پکڑی گئی ہو، دو چار دن گزرے تو چھوٹے باس نے بھی دل پشوری شروع کردی۔ پھر اس نے عشق فرمانا شروع کر دیا، ،،یک نہ شد دو شد،، آفس میں یہ بات پھیل گئی کہ نئی لڑکی پر بڑے صاحبان میں ٹھن گئی ہے، ایک دوست نے یہ سارا ماجرا سنایا تو میں نے جواب دیا کہ واقعی لڑکیوں اور عورتوں کے ساتھ ایسے واقعات ہو ریے ہیں ، لیکن لڑکیاں اپنے گھرانوں اور خاندانوں کی بدنامی کے خوف سے سامنے نہیں آتیں، اس دوست نے بتایا کہ اس نے میرا فون نمبر اسے دیدیا ہے، شاید اسے آپ کی ضرورت پڑے،مجھے یہ بات بری تو لگی،مگر خاموش رہا۔۔۔۔ لیکن اس دوست کی سوچ درست نکلی۔۔۔ کچھ دن بعد 99والے سرکاری فون نمبر سے مجھے کال آئی، ایک لڑکی کہہ رہی تھی دیکھیں ،یہ کیا حرامزدگی کر رہاہے اپنے کمرے میں ، مجھے نوچ رہا ہے ۔ دبوچ رہا ہے اچانک لائن کٹ گئی،لڑکی نے کسی نہ کسی طرح میرا نمبر ڈائل کر لیا تھا، میں نے اس نمبر پر کال کی،تو نمبر مصروف ملا، پانچ منٹ بعد اسی سرکاری فون سے پھر کال ائی، مردانہ آواز تھی، مجھ سے پوچھا گیا کہ یہ کہاں کا نمبر ہے، کس کا نمبر ہے، میں نے بتایا تو اس نے لائن کاٹ دی،اگلے دن لاٹ صاب کے دفتر میں ملازم اس لڑکی نے اپنے موبائل سے کال کرکے گزرے دن کی کہانی سنائی، ،، اس سرکاری افسر نے میری تصدیق کرکے اس لڑکی کی جان چھوڑ دی تھی، میں نے لڑکی سے کہا۔۔ وہ یہ نوکری چھوڑ کیوں نہیں دیتی؟ کیسے چھوڑ دوں یہ نوکری، آپ کو کیا پتہ کتنی قربانیاں دی ہیں میں نے پڑھنے کے لئے،اس ملازمت کے لئے۔ کتنی راتیں بھو کے گزاری ہیں، ، کیا کیا نہیں برداشت کیا، کیا کیا نہیں جھیلا ۔۔ پھر وہ پھوٹ پھوٹ کے روئی۔