Saturday 31 August 2013

صبیحہ آنٹی

بے شمار پاکستانی صحافی ایسے بھی ہیں جو پاکستان میں ہوں ، امریکہ میں یا دنیا کے کسی بھی کونے میں ، ان کے اندر سے غیر ذمہ دارانہ روایتی پن نہیں جاتا، انتہائی غیر ذمے داری سے، غیر مصدقہ اور سنی سنائی خبریں بھی عوام تک پہنچا دی جاتی ہیں، ایک فرد، ایک خاندان، اور پورا معاشرہ ایسی صحافت سے کیسے اور کتنا متاثر ہوتا ہے ، یہ سوچا بھی نہیں جاتا، میدان صحافت میں میرے 43 سال ایسے کئی واقعات کے شاہد ہیں، کئی صحافی ہیں جو ایک چھوٹے سے لفافے

کے عوض چھوٹی سی خبر چھاپ کر اسٹاک مارکیٹ کو اوپر نیچے کر دیتے ہیں اور غریب عوام کو مہنگائی کے طوفان میں لپیٹ دیتے ہیں، معیشت کی زبوحالی میں ایسے صحافیوں کا بھی بڑا کردار ہے، کچھ عرصہ پہلے یہ بے بنیاد خبر چھاپ دی گئی کہ اپنے دور میں پاکستان کی خوبصورت ترین اور با کمال ایکٹرس صبیحہ خانم امریکہ میں اپنے بیٹوں کے پاس سمپرسی کی زندگی گزار رہی ہیں، ایک صحافی کی غیر مصدقہ خبر پوری دنیا میں صبیحہ خانم کے پرستاروں پر بجلی بن کر گری، پاکستان میں صبیحہ خانم کے سسرال اور امریکہ میں صبیحہ خانم کے بچوں پر کیا گزری ہوگی؟ اس کا احساس ایسے صحافی کر ہی نہیں سکتے،بالآخردو تین دن پہلے(28مئی 2013) صبیحہ خانم کو صحافیوں کو بلوا کر اسکی تردید کرنا پڑی، وہ اس بے بنیاد خبر پر بہت رنجیدہ دکھائی دے رہی تھیں۔۔ میں صبیحہ آنٹی کو چینلز پر صحافیوں کے سامنے وضاحت کرتےدیکھ کر بہت دکھی ہوا۔ تقریبآ 25سال پہلے۔ ایک دن نیوز روم میں فون کی گھنٹی بجی ،رسیور اٹھایا تو ایک نسوانی آواز سنائی دی,بیٹا میں تمہاری پھو پھو بول رہی ہوں،، پھو پھو ؟ کون پھوپھو؟ 

میں نے ایک لمحہ سوچا،لیکن خاتون نے میرا تجسس خود ہی ختم کر دیا، 

بیٹا، میں تمہاری صبیحہ آنٹی ہوں،آپریٹر نےتمہارا نام بتایا تو جان گئی ۔۔ تم نعیم صاحب کے بیٹے ہو۔۔۔ بہت ساری دعائیں دینے کےبعدصبیحہ خانم نے تو اپنا مدعا بیان کرکے فون بند کر دیا،لیکن میری یادوں کے دریچےکھل گئے، وہ زمانہ آنکھوں کے سامنے آگیا جب فلم نگر کے لوگ ایک فیملی کی طرح ہوا کرتے تھے، وہ دن بھی یاد آگئے جب صبیحہ آنٹی رائل پارک میں اپنے والد محترم محمد علی ماہیا کے ساتھ رہا کرتی تھیں، اور وکٹوریہ پارک میں اینگلو انڈین لڑکیوں کے ساتھ بھی دکھائی دیا کرتی تھیں، 

۔فلم چھوٹی بیگم میں نعیم صاحب اور صبیحہ دیور بھابی بنے اور دیور بھابی کے رشتے کو فلم سکرین پر امر کر دیا، لقمان صاحب کی فلم ایاز میں بھی دونوں کے کردار بھر پور تھے ، نعیم صاحب نے نذیر صاحب سے آخری لڑائی صبیحہ خانم کے حوالے سے ہی لڑی اور اس کے بعد دونوں میں کبھی صلح نہ ہو سکی، ہوا کچھ یوں کہ نعیم صاحب نے نذیر صاحب کے ادارے کے لئے آخری فلم لکھی،، بہن کی محبت،، یہ فلم ریلیز ہوئی،، شوہر،، کے نام سے، یہ کہانی تھی دو بہنوں کی، چھوٹی بہن کا ہیرو سے افئیر ہوتا ہے، بڑی بہن کو اس 

بات کا علم نہیں ہوتا اور وہ بھی ہیرو سے محبت کر بیٹھتی ہے، اب ایک بہن نے دوسری کے لئے قربانی دینا ہوتی ہے۔ اور یہ قربانی دیتی کون ہے؟ نعیم صاحب نے یہ کہانی ایکٹرز (کردار نگاروں )کو مد نظر رکھ کر لکھی ،ہیرو سنتوش کمار ، ہیروئن دیبا اور ہیروئن کی بڑی بہن صبیحہ۔ جب کاسٹنگ اور شوٹنگ کا مرحلہ آیا تو نذیر صاحب نے صبیحہ والا رول سورن لتا کو دیدیا، نعیم صاحب کا موقف تھا کہ میڈم سورن لتا ایجڈ ہیں وہ ہیروئن کی ماں تو بن سکتی ہیں بہن نہیں، اورفلم کی کہانی میں بہن بھی وہ جو خود جوان اور کنواری ہے،کہانی کی ڈیمانڈ تھی کہ بڑی بہن کیlook ینگ ہو، اور انہوں نے یہ کردار ہی صبیحہ خانم کو مدنظر رکھ کر لکھا ہے، نذیر صاحب اپنی اہلیہ کے سامنے یہ دلیل پیش نہیں سکتے تھے، کیونکہ میڈم سورن لتا تو سب کے سامنے کہہ دیا کرتی تھیں کہ وہ جوان تھیں اور نذیر صاحب بڈھے،جب ان کی شادی ہوئی۔۔ گھر اور گھر سےباہر بالادست سورن لتا ہی تھیں۔ سنتوش کمار کے انتقال کے کئی سال بعد جب صبیحہ خانم کے بیٹے امریکہ میں سیٹل ہوگئے تو صبیحہ خانم بھی مستقل طور پر پاکستان چھوڑ گئیں ، کئی سال بعد جب وہ پہلی بار اپنے سسرالی خاندان میں شادیوں کی تقریبات میں شرکت کے لئے لاہورآئیں تو میں نے ان کے چھوٹےدیور منصور سے کہا کہ میڈم سے ملنا چاہتا ہوں ، منصور نے مجھے جمیلہ بھابی ( سنتوش کمار کی پہلی بیوی) کے گھر بلوا لیا، میں کیمرہ مین سمیت جمیلہ بھابی کے گھر پہنچا، انہوں بہت خاطر مدارات کی ،منصور بھی اپنی بیگم سمیت وہاں پہلے سے موجود تھے،سنتوش صاحب کے جمیلہ 

بھابی سےبچے بھی ملے،مسکراتے چہروں سے بھرا بھرا گھر، صبیحہ خانم قدرے دیر سے ڈرائنگ روم میں آئیں اور کہنے لگیں، بڑھاپے اور کمزوری کے باعث اب خود تیار تیار نہیں ہو سکتیں ، نہانے اور لباس کی تبدیلی کے لئے بچے ان کی مدد کرتے ہیں، میں نے رسمی گفتگو کے بعد سوال جواب شروع کئے تو منصور نے صبیحہ خانم کو مخاطب کرکے میری جانب اشارہ کیا،، بھابی پتہ ہے یہ کس کا بیٹا ہے؟ انہوں نے جواب دیا۔ ہاں، میں جانتی ہوں،، منصور بھائی شاید شرارت کے موڈ میں تھے، ہم جونہی باتوں کا سلسلہ جوڑتے منصور بھر پور مسکراہٹ کے ساتھ پھر وہی سوال دہرا دیتے، صبیحہ خانم ایک ہی سوال کی تکرار پر حیرانی سے منصور کو دیکھتیں اور جواب دہرا دیتیں ، شاید یہ منصور کا بڑی بھابی سے لاڈ تھا، اور وہ بھی اس پیار کو سمجھتی تھیں، منصور نے یہ سوال ایک بار پھر کر دیا تو صبیحہ خانم نے انتہائی متانت اور ٹھہراؤ سے جواب دے دیا، وہ جواب جو شاید شرارتی منصور سننا چاہتے تھے ۔ ہاں، ہاں ، کہا ناں ، جانتی ہوں کہ یہ نعیم صاحب کا بیٹا ہے، اور نعیم صاحب مجھ سے بہت پیار کرتے تھے۔