Thursday 29 August 2013

الو کا پٹھا

جنرل ضیاء نے اقتدار سنبھالتے ہی جو دو چار بڑے اقدامات کئے، ان میں سے اسکا ایک نمایاں کام صحافیوں اور اخباری کارکنوں میں نفاق ڈالنا تھا، اس کام کے لئے اسے سارے لوگ لاہور سے ہی مل گئے، لاہور کی مٹی نے جہاں بڑے بڑے قومی ہیروز کو جنم دیا ، وہیں اس شہر کی مٹی سودے بازوں، مفاد پرستوں، کاسہ لیسوں اور سازشیوں کے لئے بھی بہت نم بہت زرخیز رہی ہے
، پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کا دستوری گروپ لاہور میں ہی تشکیل پایا، میں ان دنوں پنجاب یونین آف جرنلسٹس کا سیکرٹری اور بدر الاسلام بٹ صاحب صدر تھے، میرا ایک کھلا چیلنج تھا دستوری گروپ والوں کو،، اگر آپ واقعی صحافیوں کے نمائندہ یا لیڈر ہیں تو مجھے لاہور میں اپنا کوئی اجلاس کوئی میٹنگ کرکے دکھائیں، اگر آپ اس میں کامیاب ہو گئے تو میں اصلی PFUJ کو چھوڑ کے آپ کی پٹھو یونین میں شامل ہو جاؤں گا، جنرل ضیاء کی موت اور بےنظیر کے اقتدار میں آنے تک DASTOOR GROUPلاہور میں کوئی میٹنگ کوئی جلسہ نہ کر سکا تھا، انکی ساری سرگرمیاں اسلام آباد تک محدود تھیں،، بےنظیر نے اقتدار سنبھالنے کے بعد ریٹائرڈ جنرل ٹکا خان کو پنجاب کا گورنر بنا دیا، لاہور کے قربانیاں دینے والے صحافیوں میں جنرل ٹکا خان کے بارے میں بد گمانیاں پیدا ہونے لگیں، اس وقت میں پنجاب یونین آف جرنلسٹس کا صدر منتخب ہو چکا تھا اور جنرل سیکرٹری تھے روزنامہ مشرق کے سینئیر سب ایڈیٹر محمد الیاس مغل، ایک انتہائی ایماندار، شریف النفس اور کمٹڈ آدمی۔لاہور کے صحافی گلہ کر رہے تھے کہ گورنر ہاؤس میں ہونے والی تقاریب میں اب بھی جنرل ضیاء کے گماشتہ صحافیوں کو مدعو کیا جا رہا ہے اور جمہوریت کی بحالی کے لئے جدوجہد کرنے والے جرنلسٹوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے جو ان کی توہین کے مترادف ہے، بات تو درست تھی ان کی میں نے الیاس مغل سے کہا کہ جنرل ٹکا خان سے ملتے ہیں ہم دونوں اگلے روز گورنر ہاؤس کے ایک کمرے میں بیٹھے تھے، تھوڑے سے انتظار کے بعد جنرل صاحب تشریف لے آئے، سلام دعا کے بعد میں نے بلا توفق ان کے سامنے مدعا بیان کر دیا، میری بات مکمل ہونے تک ٹکا خان ہمہ تن گوش رہے، چند لمحے کچھ سوچا اور پھر یوں گویا ہوئے، ہاشمی صاحب، آپ کے خیال میں ، ضیاء الحق بے وقوف آدمی تھا یا آپ مجھے الو کا پٹھا سمجھتے ہیں؟ جن صحافیوں کے ساتھ جنرل ضیاء نے گیارہ برس کامیابی سے حکومت کی وہ زیادہ اہم ہیں یا آپ کے ساتھ صحافی؟