Friday 30 August 2013

مہ ناز

 جنوری 2013
امریکہ اور کینڈا میں چھٹیاں گزارنے کے دوران زاہد عکاسی کے مرنے کی اطلاع سرور سکھیرا نے فیس بک پر دی، زاہد نے موت سے صرف ایک دن پہلے اپنے پروفائل پر نئی تصویر لگائی تھی، تصویر اتنی خوبصورت تھی کہ مجھے سوچنا ۔پڑا، کہ یہ کس فوٹو گرافر کا کمال ہے،۔ زاہد کے دوست اس تصویر پر کمنٹس کر رہے تھے اور میں سوچ رہا تھا کہ داد تصویر کو دوں، تصویر والے کو یا کیمرہ مین کو

کہ مہلت ہی ختم ہو گئی، لاہور واپس آ کر دادا طفیل اختر سے فون پر تعزیت کی چھ ماہ پہلے داغ مفارقت دے جانے والے معین احمد کی بہن شاہدہ کا انتقال بھی میری لاہور سے عدم موجودگی کے دوران ہوا، معین کو ڈاکٹر نے بتا دیا تھا کہ کینسر کے موذی مرض میں مبتلا جواں سال شاہدہ اب لا علاج اور چند دن کی مہمان ہے، معین شاہدہ کو اپنے ہاتھوں وداع نہیں کرنا چاہتا تھا اور وہ پہلے ہی رخصت ہو گیا، معین کے جنازے پر شاہدہ کا ضبط دیدنی تھا، وہ بھی بھائی کے پیچھے جانے والی تھی اور ساری حقیقت سے آگاہ تھی، میں شاہدہ کو مری ہوئی نہیں دیکھ سکتا تھا ، اسی لئے تقدیر مجھے دور لے گئی، گلوکارہ مہ ناز کا انتقال میری وطن واپسی کے تیسرے دن ہوا، ٹی وی پر مہناز کی رخصتی کی خبر چل رہی تھی اور میں 1977 کے سمن آباد میں داخل ہو رہاتھا ۔لاہور میں فلم میکنگ کی بنیاد رکھی گئی تو سب سے پہلے سمن آباد فلم آرٹسٹوں کا مسکن بنا، وجہ تھی فلم اسٹوڈیوز کا قریب ہونا، لاہور کا یہ پہلا پوش علاقہ 80کی دہائی تک ایکٹرز پارک بنا رہا، ہمارا گھر سمن آباد ٹیلیفون ایکسچینج والی سڑک کے آخر میں بائیں ہاتھ پر تھا (یہ گھر اب بھی ہمارے پاس ہی ہے) سمن آباد کے مزنگ والے گول چکر کے قریب اے شاہ شکار پوری، گلوکار مسعور رانا، اداکارہ رضیہ ، رخسانہ ، اعجاز ، سلطان راہی سمیت کئی فلمی لوگ رہا کرتے تھے، جبکہ ٹیلی فون ایکسچینج والی سڑک پر نجم الحسن ، ریکھا، شیخ اقبال اور کئی اور ہستیاں مقیم تھیں، یہ وہ زمانہ تھا جب مجھے تمباکو والا پان کھانے کی لت پڑ گئی تھی، نہ میں پان کھائے بغیر سو سکتا نہ جاگ سکتا تھا، صبح آنکھ کھلتی تو ٹیلی فون ایکسچینج والی سڑک پر پیدل چلتا ہوا سمن آباد مین مارکیٹ پہنچ جاتا ، یہ وہی دن تھے جب ہم مارشل لاء کے خلاف سینہ سپر تھے، پان کھانے کی عادت ہتھکڑیوں اور زنجیروں میں بھی نہ چھوٹی تھی، اسی عادت کے باعث فوجی عدالتوں کے سربراہوں سے بھی جھڑپیں ہوئی تھیں ان دنوں کراچی سے آنے والی گلوکارہ مہناز کا ایک فلمی گانا زبان زد عام تھا، یہ گیت مجھے بھی اچھا لگتا تھا ،اس میں بہت غنائیت تھی۔ 

؛میں ہوتی اک مورنی اور توں ہوتا اک مور جنگل جنگل ناچتی اور یہ کرتی شور ایک دن اوکاڑے سے منیر چوہدری ملنے آیا تو اس نے انکشاف کیا کیا تم جانتے ہو کہ مہناز تمہاری ہمسائی ہے؟ مہناز نے سمن آباد ایکسچینج والی سڑک کی ایک بغلی گلی میں کرائے پر گھر لیا تھا، بھارت سے آنے والے فلم ڈائریکٹر راکھن بھی کچھ عرصہ اسی گلی کے مکین رہے، مہناز اس گھر میں اپنے والد ، والدہ کجن بائی اور چار بھائیوں کے ساتھ رہ رہی تھی ، اس فیملی سے میری دنوں میں ہی دوستی ہو گئی، اب مجھے پان کھانے سمن آباد مین مارکیٹ جانے کی ضرورت نہ رہی تھی، میں صبح جاگتے ہی مہناز کے گھر پہنچ جاتا، جہاں کجن بائی پاندان سجائے میری منتظر ہوتیں، کبھی کبھی ناشتہ بھی ساتھ ہو جاتا، آہستہ آہستہ یہ تعلق آگے بڑھنے لگا، اب کوئی بھی فلمی آدمی یا موسیقار مہناز کو سائن کرنے آتا تو اسے ہاں یا ناں کہنے کے لئے مجھ سے مشورہ ضروری سمجھا جانے لگا، ایک دن تو حد ہو گئی، مہناز کو فلم سے متعارف کرانے والے اے حمید ایک گیت لے کر وہاں آئے تو مہناز نے ہاں کرنے کے لئے مجھ سے اجازت چاہی، میں اس بات پر خود شرمندہ ہو گیا ، پھر حالات نے میرے اور مہناز کے خاندان سے فاصلے اتنے بڑھا دیے کہ کبھی بات ہوئی نہ ملاقات، کئی بار سوچا کہ ملیں گے، لیکن ایسا ہوا نہیں۔ مہناز کی موت سے دو دن پہلے میں نے نیویارک سے لاہور آتے ہوئے پہلی بار کسی ائیر لائینز کے وڈیو سسٹم سے استفادہ کیا، وہاں مہناز کا ایک گھنٹہ دورانیہ کا پروگرام موجود تھا، میں نے مہناز کے سارے گیت پورے انہماک سے سنے، یہ شاید محض ایک اتفاق تھا۔۔
مہناز اکیلی کمانے والی اور پورا خاندان کھانے والا تھا، میں جانتا تھا کہ، سب لوگ اپنی اپنی جگہ سیٹ ہو جائیں گے اور مہناز اکیلی رہ جائے گی، یہی ہوا اس نے بھائیوں کو تو امریکہ میں سیٹ کر دیا اور خود اکیلی بیماری سے جنگ کرنے کراچی میں تنہا رہ گئی۔ وہ خوش نصیب تھی کہ اس کی میت پر رونے والے بہت تھے، ورنہ شوبز کی عورتوں کو تو دفنایا بھی چوری چوری جاتا ہے۔ منیر چوہدری نے فون کرکے مہناز کے انتقال پر تعزیت کی تو میں نے جواب دیا۔
وہ سارے دن بھی مہناز کے ساتھ دفن ہو گئے ہیں، میرے یار۔