Wednesday 28 August 2013

ایک شاعرانہ فارمولہ

وہ دو تین سال پہلے انتقال کر گیا تھا۔۔۔۔
 جب وہ ابھرتا ہوا نوجوان شاعر تھا، مشاعروں میں بلوایا جاتا تھا، ادبی رسائل و جرائد میں کلام چھپتا تھا، شاعری اور مشاعروں کے باعث اس کی کئی بڑے افسروں اور پیسے والوں سے علیک سلیک بھی ہو گئی تھی، وہ شاعروں ادیبوں کے ایک گروپ میں
بھی شامل ہو گیا جس کے نتیجے میں اسے بیرون ملک مشاعروں میں شرکت کے موقعے ملے، پھر کسی کی سفارش سے ایک چھوٹی سی سرکاری ملازمت مل گئی، تنخواہ تھوڑی تھی ،کھانا تو کھانا چائے سگریٹ کا خرچہ پورا کرنا بھی مشکل ہوتا، پھر اس نے شادی بھی کر ڈالی ، خرچے بڑھتے گئے ، آمدن نہ بڑھی، ایک دن محلے میں سبزی فروش نے آواز لگائی تو بیگم نے اسے آلو پیاز خریدنے کا کہہ کر گلی میں بھجوا دیا، سبزی فروش اٹھارہ ،انیس برس کا لڑکا تھا، شاعر نے آلو پیاز خریدتے خریدتے اس کے کوائف پوچھنے شروع کر دیے، سبزی فروش نے بتایا کہ وہ دسویں جماعت میں پڑھتا تھا کہ اس کے باپ کا انتقال ہوگیا ، بیوہ ماں کے ساتھ تین چھوٹی بہنیں اور ایک بھائی ہے جو سرکاری اسکولوں میں پڑھ رہے ہیں ، ان سب کی کفالت کے لئے اسے اپنی پڑھائی چھوڑ کر ریڑھی لگانا پڑی، شاعر بہت حساس اور درد دل رکھنے والے لوگ ہوتے ہیں،اس نے لڑکے سے پوچھا کہ کتنا کما لیتے ہو؟،،، سو ، دو سو کی دیہاڑی لگ جاتی ہے، ،،، شاعر نے لڑکے کو پیش کش کی کہ وہ اسے پانچ ہزار ماہانہ دے گا ، وہ کل سے اس کے پاس آجائے ، کام کوئی مشکل نہیں ہوگا .شاعر نے اس سبزی فروش لڑکے کو تو پانچ ہزار میں ملازم رکھ لیا تھا لیکن خود اسکی تنخواہ ساڑھے چار ہزار روپے ماہانہ تھی، لڑکے نے اگلے روز سے باقاعدگی سے شاعر کے پاس آنا شروع کر دیا، بیگم پریشان تھی کہ یہ کون ہے ، جو آکر بیٹھا رہتا ہے، شاعر شوہر نے اس کے پوچھنے پر گول مول جواب دیدیا، نوکری کے چار دن بعد شاعر نے اس لڑکے کو پہلی اسائنمنٹ دی، ،،، اس نے لڑکے کے ہاتھ میں ایک بند لفافہ تھمایا اور پھر اسے شہر کے ایک علاقے کا ایڈریس سمجھاتے ہوئے کہا کہ وہ اس کے دوست کو یہ لفافہ دیدے اور جو جوابی لفافہ وہ دوست اسے دے وہ لے کر آجائے، ایسا ہی ہوا، وہ لڑکا شاعر کے دوست کے پاس گیا ، دوست نے اس کے سامنے ہی لفافہ کھول کر اسے پڑھا، ایک گہری نظر لڑکے پر ڈالی، گھر کے اندر گیا ، واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں بھی ایک بند لفافہ تھا ، جو اس نے اس لڑکے کو تھماتے ہوئے اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر کہا ،، اللہ مہربانی کرے گا،،لڑکا واپس لوٹ آیا، شاعر نے بھی لڑکے کا شانہ تھپتھپا کر اسے شاباش دی اور کہا کہ اس کی آج کی ڈیوٹی ختم ہوئی وہ کل پھر کام پر آجائے،لڑکا گھر واپس جاتے ہوئے سوچ رہا تھا ، اللہ نے کتنا آسان روزگار لگا دیا، اب وہ دوبارہ پڑھائی بھی شروع کر سکے گا 
ہر دوسرے تیسرے دن اسے یہی ڈیوٹی دینا پڑتی تھی، بند لفافہ دینا اور بند لفافہ واپس لے کر آجانا، فرق صرف یہ ہوتا کہ ہر بار شاعر کا دوست بدل جاتا اور ایڈریس دوسرا ہوتا،،،
اسے پہلے مہینے دس بار یہ ڈیوٹی دینا پڑی، باقی بیس دن وہ شاعر کے پاس بیکار بیٹھ کر واپس گھر آیا تھا، مہینہ ختم ہوتے ہی اسے پورے پانچ ہزار تنخواہ بھی مل گئی۔ لڑکے کی نوکری کا دوسرا مہینہ چل رہا تھا ، پہلے ہفتے اسے صرف تین بار ڈیوٹی دینا پڑی، وہ تیسری ڈیوٹی پر شاعر کے دوست کے گھر پہنچا تو اسے بتایا گیا کہ اس کامطلوبہ آدمی ملک سے باہر گیا ہوا ہے اور دو ہفتوں بعد واپس آئے گا، لڑکا شاعر کے گھر واپس لوٹ رہا تھا کہ راستے میں اس کی حس تجسس جاگ اٹھی، اس نے سوچا کہ کیوں نہ لفافہ کھول کر دیکھا جائے کہ اس میں ہے کیا؟ اس نے ایک جگہ بیٹھ کر بہت احتیاط سے وہ لفافہ کھول ہی لیا، احتیاط سے اس لئے کہ لفافے کو دوبارہ اس طرح بند بھی کرنا تھا کہ شاعر کو شک نہ پڑے، لفافے سے ایک رقعہ برآمد ہوا جس میں لکھا تھا،
 قابل عز و احترام سیٹھ صاحب۔۔ آپ کی خدمت میں حاضر ہونے ولا یہ بچہ یتیم ہے ۔ تین چھوٹی بہنوں، بھائی اور بیوہ ماں کی کفالت اس کے ذمہ ہے ، اس کی پڑھائی چھوٹ چکی ہے، آپ جیسے خدا ترس کی مدد سے اس بچے کا گھرانہ سنبھل سکتا ہے، یہ ایک سفید پوش گھرانے کا انتہائی حساس اور خود دار بچہ ہے، اس کی اس طرح مدد کی جا سکتی ہے کہ آپ اسے خاموشی سے بند لفافے میں حسب توفیق مناسب رقم عنایت کر دیں، آپ کی یہ امداد اللہ اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے گا اور دنیا و آخرت میںاجر عطا فرمائے گا
...آپ کے لئے ڈھیر ساری دعاؤں کے ساتھ ۔۔۔۔ نیاز مند ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔