Friday 30 August 2013

اور بالآخر وہ مسلمان ہو گیا۔

وارث روڈ لاہور میں واقع لال قلعہ میں اسیری کے دوران یوں تو ریاستی اداروں کے شہریوں پر تشدد کے کئی واقعات دیکھے بھی اور سہے بھی، ایک ایک واقعہ ایک ایک مکمل کہانی ہے، لیکن کچھ واقعات ایسے بھی ہیں، جنہیں سوچتا ہوں، یاد کرتا ہوں تو

فیصلہ نہیں کر پاتا کہ شروع کہاں سے کروں اور انجام کیا لکھوں؟ کیونکہ ایسی کئی داستانیں آج بھی دیکھنے اور سننے کو مل جاتی ہیں، جب بھی کوئی ایسی نئی کہانی سامنے آتی ہے تو یہ سوچ میرے دماغ میں ضرور ابھرتی ہے؛؛ کیا زمین صرف مسلمانوں کے لئے تخلیق کی گئی، کیا خدا صرف مسلمانوں کا رب ہے؟ اللہ نے رسول کریم ٰصلعم کو رحمت المسلمین کی بجائے رحمت العالمین کیوں بنایا؟ اللہ خود رب العالمین کیوں ہے؟ پاکستان ریاستی اداروں کی بالادستی کے لئے معرض وجود میں آیا?، یہ صرف چند ہزار
، چند لاکھ طاقتور مسلمانوں کا ملک ہے؟؟؟ 
لال قلعہ میں......
ایک دن جب ہم چودہ پندرہ سیاسی اسیروں کو کھانا فراہم کیا گیا تو اس کے چند منٹ بعد ہی دل دہلا دینے والی چیخیں ابھرنے لگیں، کسی کو چھتر مارے جا رہے تھے، ہماری پانچ بائی پانچ فٹ کی کوٹھریوں کے آہنی دروازں کے ساتھ سلاخیں نہیں تھیں، ہر کوٹھری کے دروازے پر ایک چھوٹا سا سوراخ تھا، جسے فوجی حکام اور دیگر ایجنسیوں کے عہدیدار قیدیوں سے مکالمے کے لئے استعمال کرتے تھے، روٹی بھی اسی سوراخ کے ذریعے دی جاتی اور پھر اسے بند کر دیا جاتا، اس دن کی چیخیں ہمارے کسی ساتھی کی نہ تھیں، کیونکہ ہم لوگوں کو جب تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تو ہم اپنی چیخ اپنی روحوں میں جذب کر لیا کرتے تھے، تاکہ ہمارے ساتھیوں کو ذہنی اذیت نہ ہو، یہ چیخیں ہمارے کسی ساتھی کی نہ تھیں۔ اس نئے قیدی پر دن میں کئی بار تشدد کیا جاتا، ایک دن کھانا فراہم کرنے والے باریش بزرگ سے میں نے اس نئے قیدی کے بارے میں پوچھ ہی لیا، بابا جی نے بتایا کہ اس کی عمر سترہ اٹھارہ سال ہے، وہ عیسائی ہے، اسے اسلامی شعائر کی بے ادبی کے الزام میں یہاں لایا گیا ہے، میں نے سوچا کہ اگر ایسا ہی ہے تو اسے گرفتار کرکے تھانے یا جیل میں لے جایا جانا چاہئیے تھا، یہاں اس عقوبت خانے میں مقدمہ چلائے بغیر روزانہ تشدد کا کیا مطلب؟ یہ تو میری سوچ تھی، وجہ کوئی دوسری بھی ہو سکتی تھی، اس کا مقصد ہمیں خوفزدہ کرنا بھی ہو سکتا تھا، مجھےخود ایسے الزامات کا سامنا تھا، جو سمجھ سے بالا تھے، میں کئی بار دوران تفتیش سوال کرتا ؛ مجھے میرے جرائم سے آگاہ کیا جائے؛ بتایا جائے کہ یہاں کیوں لایا گیا ہوں؟
ہر بار ایک ہی جواب ملتا؛ تم خود بتاؤ تمہیں یہاں کیوں لایا گیا ہے؛؛ 

اس نوجوان عیسائی قیدی پر تشدد اور اسکی چیخوں کی آوازیں سنتے کئی ہفتے گزر گئے، تو ایک دن اس پراسرار جیل کے ایک داروغہ نے، جس کے پاس ہماری کوٹھریوں کی چابیاں ہوا کرتی تھیں، رات گئے ہم سب کو باری باری نکال کر ایک کوٹھری میں جمع کیا، جہاں وہ نوجوان عیسائی قیدی بھی موجود تھا، اس کا پورا جسم تشدد سے سوجھا ہوا تھا، وہ سر جھکائے ہمارے ساتھ خاموش بیٹھا تھا، داروغے نے جس کا جثہ اور قدوقامت پہلوانوں جیسا تھا، مٹھائی کا ایک ڈبہ ہمارے درمیان رکھا اور بولا۔ آج خوشی کا دن ہے، اسی لئے تم سب کو کوٹھریوں سے نکالا ہے، اس عیسائی لڑکے نے اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے، اس پہلوان داروغے نے کلمہ پڑھا، عیسائی لڑکے نے کلمہ دہرایا۔ لا الہ الاللہ محمد رسول اللہ سب نے مبارک بھی دی اور مٹھائی بھی کھائی، چند منٹ کی آزادی کے بعد ہم سب اپنی اپنی کوٹھری میں تھے، قبول اسلام کے بعد وہ لڑکا کہاں گیا، اس کا کیا بنا؟ یہ سب ہمیں کبھی معلوم نہ ہو سکا۔