Tuesday 27 August 2013

وڈیروں کی جاگیریں

خالقی سے دوستی ایک مشترکہ دوست کے حوالے سے ہوئی، وہ جب بھی لاہور آتا ، مجھے مل کر واپس جاتا، اس کے علاقے کا پٹواری اسکا جگری دوست تھا، خالقی کہیں جائے اور پٹواری ساتھ نہ ہو، یہ کبھی ہوتا نہیں تھا،پٹواری اس کی نجی زندگی اور دوسرے کرتوتوں میں بھی اس کا رازدان تھا۔ دیپال پور اور پاک پتن کے درمیان چوہدری خالقی کی بڑی زمینیں تھیں،جو اسے وراثت میں ملیں ، چاروں اطراف پھیلی ہوئی وسیع و عریض اراضی بھی اس کے بھائیوں اور کزنوں کی تھی، گاؤں کا نام اس کےدادا پردادا سے منسوب تھا،مین سڑک کے دوسری پار کاحاکم اس کا چاچا تھا، یہ چاچا میرے والد کا بہت پرستار تھا، اس لئے مجھے ملتا تو بہت خوش ہوتا اور میرے والد سے اپنی ملاقاتوں کا احوال سناتا،میں خالقی کے گاؤں جاتا تو ھویلی کی بجائےڈیرے میں ٹھہرایا جاتا،صبح اٹھتے ہی جو دیسی ناشتہ پیش کیا جاتا ،اس کا ذائقہ ہی نرالہ ہوتا،ڈیرے سے پہلے درجنوں کچے مکان تھے جہاں مزارعوں کے خاندان رہ رہے تھے، یہ مکان زمیندار خالقی نے ہی بنوا کر دیے تھے، مزارعوں کو فصل پکنے پر ان کا چھوٹا سا مخصوص حصہ دیا جاتا،جسےوہ کھاتے بھی اور پیٹ کاٹ کر گندم، کپاس یا چاول بازار میں بیچ کر دوسری ضروریات بھی پوری کرتے، یہ مزارعے بھی زمینداروں کی رعیت میں ہی ہوتے ہیں، ان کا جینا مرنا، ان کی خوشیاں ان کے آنسو سب کچھ زمیندار کے قبضے میں ہوتا ہے، کوئی بھاگ کر چلا جائے تو اسے اور اس کے خاندان کو سخت سزائیں جھیلنا پڑتی ہیں، زمیندار کی قید سے فرار ہونے والے کسی مزارعے کو زمین بھی کہیں پناہ نہیں دیتی کبھی کبھار جب میں اس گاؤں جاتا تو ڈیرے پر رات گئے تک باتیں ہوتیں، کبھی کسی موضوع پر ، کبھی کسی موضوع پر، یہ ،،کسی،، والی تکرار تو آپ سمجھ ہی گئے ہونگے، خالقی کے چھوٹے بھائی شاہدکو سیاسی گفتگو کا چسکا تھا، وہ پنجاب یونیورسٹی میں جہانگیر بدر کا کلاس فیلو رہ چکا تھا، خالقی اور شاہد اس معاملے میں میرے بہت مخالف تھے کہ جمہوریت کی بحالی کے لئے جسمانی اور ذہنی اذیتیں کیوں برداشت کرتا ہوں،یہ وہ دن تھے جب ملک میں آمریت کے سائے ہر سو پھیلے ہوئے تھے، خالقی اور شاہد دونوں بھائی پاکستان پیپلز پارٹی اور بھٹو کےسخت مخالف تھے، لیکن عجب واقعہ ہوا جب نےنظیر صاحبہ پہلی بار حکومت میں آئیں، خالقی کا بھائی شاہد پارلیمنٹ میں بھی تھا اور کابینہ میں بھی، اللہ اللہ خالقی شادی شدہ تو تھا مگر معاشقہ منٹگمری( ساہیوال ) کی ایک کم عمرلڑکی سے بھی چل رہا تھا،اس عشق میں وہ بری طرح مبتلا تھا، لڑکی کی ضد پر اس نے اس سے نکاح کیا اور ایک علحدہ مکان بھی لے کر دیا، ایسے معاملات میں پٹواری اس کے بہت کام آتا تھا، یہ کہانی کہاں تک چلی یہ میرے علم میں نہیں ، کیونکہ اس دوران ایک ایسا واقعہ رونما ہوگیا جس کے بعد میں نے اس سے میل ملاقات بند کر دی۔۔۔ شدید گرمی کے دن تھے، میں اوکاڑہ میں تھا، سوچا خالقی سے مل کر لاہور جاؤں، بس پر بیٹھا اور اس کے گاؤں پہنچ گیا، حویلی کے دروازے سے ہی پتہ چل گیا کہ چوہدری صاحب زمینوں پر گئے ہوئے ہیں، مجھے ان کے پاس پہنچانے کے لئے ایک گھوڑے پر بٹھایا گیا، دوسرے گھوڑے پر راہنما تھا، ایک فرلانگ آگے گئے تو دور بہت سارے لوگوں کی بھیڑ دکھائی دی، ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی تماشہ دیکھنے کے لئے لوگ دائرے میں کھڑے ہوں، تھوڑی دیر میں ہم وہاں تک جا پہنچے، میں تیزی سے گھوڑے سے اتر کر تماشہ گاہ میں جا گھسا،، ایک نوجوان لڑکی نیم برہنہ زمین پر لیٹی چیخیں مار رہی تھی، خالقی کے ہاتھ میں پستول تھا، وہ ہجوم کی طرف پستول لہراتے ہوئے کہہ رہا تھا ، یہ بات گاؤں کے اندر یا باہر کسی کی زبان سے باہر گئی تو اس کی سزا اس پستول کی گولی ہوگی، ،ہوا کیا تھا؟؟؟

تپتی دھوپ میں زمین پر لیٹی ، چیختی چلاتی لڑکی ایک مزاعے کی بیٹی تھی، چوہدری کی زبردستیوں کے باعث وہ حاملہ ہو گئی تو چوہدری نے اپنا گناہ چھپانے کے لئے اپنے چاچے کے گاؤں سے ایک دایا بلوائی، وہ دائی اس لڑکی کو اس مقام پر لائی، ابارشن کے لئے اس نے اپنا کوئی آزمودہ نسخہ استعمال کیا، لڑکی وہ خطرناک حربہ برداشت نہ کر سکی، اس کی چیخیوں کی آواز مزارعوں کے کچے مکانوں تک پہنچی تو وہ سب یہاں پہنچ گئے، دائی وہاں سے بھاگ گئی اور چوہدری وہاں پہنچ گیا تھا۔۔