Friday 30 August 2013

ایک تھا زبیر رانا

بیویاں بہت دیکھی ہیں،شوہروں کے ظلم سہنے والیاں، شوہروں کو پھینٹی لگانے والیاں، شوہروں کے عیب گنوانے والیاں،شوہروں کا مشکل میں ساتھ دینے والیاں اورشوہروں سے والہانہ پیار کرنے والیاں ،، مگر نہیں دیکھی تو
نسرین انجم بھٹی جیسی کوئی اور ، جس نے زبیر رانا سے بچوں کی طرح لاڈ کیا، زبیر رانا کی موت پر نسرین انجم بھٹی کا مضمون پڑھا تو ششدر رہ گیا، یہ کیسی عورت ہے جو ایک لا پروا ، غیر ذمےدار اور بے لگام آدمی کی پرستش کرتی رہی۔۔۔۔اور اب اس کی موت پر بال کھولے بین کرتی نظر آتی ہے۔۔ نسرین انجم بھٹی بھی کیا کرے ، زبیر رانا اپنی بہت ساری کوتاہیوں کے باوجود زندگی کے آخری دنوں تک ایک معصوم بچہ ہی رہا۔1967/68 میں مختلف شہروں، دیہات اور قصبوں سے جو لوگ اپنے گھروں سے بغاوت کرکے انقلاب برپا کرنے لاہور پہنچے تھے، زبیر رانا بھی اسی قافلے کا ایک سپاہی تھا، انقلاب پڑھتا تھا ، انقلاب کا پرچار کرتا تھا، بولتا بہت تھا، جسے ایک بار پسند کر لیتا اس کا پیچھا نہیں چھوڑتا تھا، نسرین انجم بھی جو ستر کی دہائی میں بحثیت پروڈیوسر ریڈیو سے وابستہ ہوئی تھیں، زبیر رانا کی پسند ہی تھیں، نسرین بھی سماج کو بدلنے کی خواہش رکھنے والوں کی سرگرم ساتھی تھیں، دونوں میاں بیوی زاہدہ پروین، شاہدہ پروین، اور استاد امانت علی خان کے پرستار تھے، نسرین کے پاس ریڈیو میں موسیقی کا شعبہ تھا، وہ کلوکاروں اور موسیقاروں کو انقلاب کا راستہ دکھایا کرتی تھیں، استاد امانت علی خان کا انتقال ہوا تو میاں بیوی نے ان پر ایک کتاب چھاپ دی، نام تھا؛؛؛مورا تم بن جیا را اداس ۔ زبیر رانا بہت پڑھتا تھا، بہت لکھتا تھا، پاک ٹی ہاؤس بھی جایا کرتا تھا، مسعود منور، فہیم جوزی۔ خالد لڈو، آزاد کوثری، لخت پاشا، شاہد محمود ندیم ، فوزیہ نازلی اور کئی دوسرے سر پھرے اس کے حلقہ احباب میں شامل تھے،ڈاکٹر مبشر حسن کو وہ آئیڈلائز کرتا تھا

1981میں لاہور سے روزنامہ جنگ کا اجراء ہوا تو زبیر رانا بھی ہمارے ساتھ بانی ٹیم کا حصہ بن گیا، وہ فیلڈ میں جا کر عوامی اہمیت کے فیچر تیار کرتا تھا، اس کے ساتھ ایک لمبی چوڑی ٹیم بھی ہوا کرتی تھی، زبیر رانا نے جن نئے لوگوں کو اپنے ساتھ رکھا ان میں سے کئی بعد میں نامور صحافی بنے، میری شادی ہوئی تو زبیر اور نسرین نے اپنے گھر میں دعوت بھی کی تھی، ان دنوں وہ اپنے ہم زلف لخت پاشا کے ساتھ سعدی پارک مزنگ میں رہتا تھا ۔ غیر محتاط گفتگو بھی اس کی خوبیوں میں شامل تھی، وہ کسی کے بارے میں کچھ بھی کہہ سکتا تھا، اپنی اسی عادت کے طفیل اسے کئے بار ملازمت سے بھی ہاتھ دھونا پڑے، نقصان کچھ بھی ہوجائے، وہ اپنا موقف نہیں بدلتا تھا، کوئی اس سے اس کی کسی عادت کو نہیں چھڑوا سکتا تھا، ابتداء میں تو وہ پینے پلانے میں احتیاط اور اعتدال کو ملحوظ رکھتا رہا لیکن آہستہ آہستہ یہ عادت بے قابو ہوتی گئی، مالی تنگی شروع ہوئی تو اس نے ہومیو پیتھی سے یارانہ ڈال لیا، ہومیو پیتھی کی ہر دوا میں بنیادی عنصر الکحل ہوتا ہے، وہ ہر وقت ہومیو پیتھک ادویات کی شیشیاں جیب میں رکھتا اور سب کے سامنے انہیں استعمال کرتا، وہ الکحلک ہو چکا تھا، زبیر رانا الکحلک نہ ہوتا تو کیا کرتا؟ وہ آنکھوں میں انقلاب کے جو سپنے سجا کر لاہور آیا تھا، ان میں ایک خواب بھی ایسا نہ تھا جو پورا ہوا ہو، بے نظیر بھٹو اقتدار میں آئیں تو زبیر رانا اور نسرین انجم بھٹی نے سوچا کہ بچوں کے لئے ہی کوئی کام کر لیا جائے، وہ اسکولوں کے بچوں کی آڈیو، وڈیو کیسٹوں کے ذریعے تربیت کرنا چاہتے تھے، یہ منصوبہ بھی پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا، زبیر رانا نے تہذیب و ثقافت ، سیاسیات اور سماجی مسائل پر بارہ کتابیں لکھیں، مرنے سے پہلے اس نے ِِ ؛؛ بے نظیر کا قتل کیوں ہوا؟ کے عنوان سے کتاب مرتب کر لی تھی ، جس کی اشاعت کا اہتمام آجکل نسرین انجم بھٹی کر رہی ہیں وہ زندگی کے آخری سال خوابوں میں گزارنے لگا تھا، دوستوں کو انگلش وہسکی کی دعوت دے کے گھر بلواتا اور دیسی بوتل میں ٹھرا پلاتا، اس کا اصرار ہوتا کہ وہسکی تو انگلش ہی ہے، اس نے اپنی پہلی بیوی سے بچوں کے خوف سے اصلی بوتل غائب کردی ہے تاکہ کسی کو پتہ نہ چل سکے کہ کھر میں شراب پڑی ہے، وہ گھر میں وائن بھی بنانے لگا تھا ، دوستوں کو بتاتا کہ اس کے پاس فرانس یا اٹلی سے وائن آئی ہے ، پھر کسی دیسی بوتل کے ساتھ پریس کلب پہنچ جاتا، اس نے کئے دوستوں کو گھر میں وائن تیار کرنے کے گر بھی سکھائے ۔۔ مرنے سے تین چار سال پہلے وہ میرے پاس آیا اور بڑے پر جوش انداز میں بتانے لگا کہ اسے اقوام متحدہ میں چالیس ہزار ڈالر کی نوکری مل گئی ہے اور وہ چند ہفتوں بعد نیویارک چلا جائے گا، میں بہت خوش ہوا ، مجھے زبیر رانا کا کوئی بھی جاننے والا ملتا تو میں اس سے یہ خوشخبری ضرور شئیر کرتا، لیکن چھ ماہ بعد مفلس زبیر رانا پھر ایک سڑک پر پیدل چلتا ہوا مل گیا َََ۔ تمہیں تو اقوام متحدہ میں نوکری مل گئی تھی۔ تم نے تو نیویارک جا کر جوائننگ دینا تھیِِِ، میرا تبادلہ جنوبی افریقہ میں کر دیا گیا ہے، اس لئے جوائننگ میں دیر ہو گئی، اوہ ہو۔ میں جان گیا کہ اب اس نے اپنی مہنگی اپوائنٹمنٹس خود کرنا شروع کردی ہیں،
 انیس سو نوے میں
 میں مجھے چیف نیوز ایڈیٹر کے عہدے پر ترقی ملی، تو دوچار دن بعد زبیر رانا مجھے آفس کے گیٹ  پر مل گیا۔  کہنے لگا ، مجھے پتہ ہے، تمہارے سی این ای بن جانے کا،، صاحب نے ہم سب کو میٹنگ میں  بتایا تھا۔۔ میں نے صاحب سے کہا تھا ،،،آپ نے کس جاہل  کو چیف نیوز ایڈیٹر بنا دیا ہے،،