Friday 23 August 2013

سیف الملوک مجسٹریٹ درجہ اول

کتنا لاعلم ہوں میں ، مجسٹریٹ درجہ اول کو بہت بااختیارجج سمجھتا رہا، وہ تو عدالتوں کی رپورٹنگ کرنے والے ریاض شاکر نے بتایا کہ اس کے اختیارات محدود ہوتے ہیں،وہ چھوٹے موٹے جرائم میں ملوث ملزموں کا ریمانڈ دیتا ہےاور کسی کو سات سال سے زیادہ سزا بھی نہیں سنا سکتا۔ اچھا، تو پھر سزائےموت والےمقدمات میں ہمیں کیوںریمانڈ کے لئے مجسٹریٹ درجہ اول کے سامنے پیش کیا جاتا تھا؟
گلی گلی میں فوجی عدالتیں قائم کرنے کے باوجود جنرل ضیاء کے مقاصد پورے نہیں ہو رہے تھے،ہزاروں گرفتار افراد کے ریمانڈ اور سزاؤں کے لئے مجسٹریٹس کو بھی لامحدود اختیارات دیدیے گئےتھے۔302 سمیت تعزیرات پاکستان کی کئی دفعات کے ساتھ میں بھی مارشل لاء مخالفوں کے ہمراہ ہیبت ناک عقوبت خانے شاہی قلعے میں بند تھا، یہاں تمام ایجنسیوں اور تحقیقاتی اداروں کے بڑے افسر خود بیٹھتے اور خود سیاسی قیدیوں پر ذہنی اور جسمانی ٹارچر کیا کرتے تھے، ،IB کا ملک مظفر جب مجھے انٹیروگیشن کے لئے ہتھکڑیوں سمیت بلواتا تو پہلے کڑی دھوپ میں کھڑا کرتا، پھر حکم دیتا،، گھٹنے فولڈ کرو، اس کے بعد میرے دونوں ہاتھوں میں تین تین اینٹیں رکھوا دیتا دی، وہ ,کے ٹو ، سگریٹ پیا کرتا تھا، مجھے اذیتیں دے کر کش پہ کش لگا تا اورمیری بے بسی کا تماشہ دیکھتا ،میں جسمانی طور پر بہت لاغر ہو چکا تھا،اورجانتا تھا کہ مجھے سب برداشت کرنا ہے، ہمت ہار گیا تو گھر لاش ہی پہنچے گی، اور اس کی بھی ضمانت نہیں، میں اس سے پہلے چھ سات جیلیں کاٹنے اور کوڑے برداشت کرنے کے بعد1981 میں اس عقوبت خانے میں پہنچا تھا، مہینے میں ایک دن ڈاکٹر راؤنڈ پر آتا تو حوصلے کے ساتھ اسپرو کی ایک گولی بھی دے جاتا، شاہی قلعہ میں سیاسی قیدیوں کی حیثیت ان مویشیوں سے بدتر تھی جو چھری پکڑے ہوئے قصاب کے سامنے ذبح ہونے کے منتظر ہوتے ہیں، اس عقوبت خانے کا امام تھا، ادھیڑ عمر کا ایک سابق ڈی آئی جی چوہدری سردار جو قیدیوں پر ٹارچر کے دوران کبھی نماز پڑھنا نہیں بھولتا تھا، اور بے گناہوں کو ٹارچر کرکے ضیاءالحق کے اسلام کو پھیلا رہا تھا،،فوج کی نوکری چھوڑ کر پولیس میں بھرتی ہونے والا ایس پی میجرعظمت تشدد کے کئی گر جانتا تھا، جو اس کی انوسٹی گیشن میں جاتا، لاشہ بن کر ہی واپس سیل میں آتا، اس عقوبت خانے کے انتظامی امور جنرل رانی کے بہنوئی چوہدری بشیر کے ہاتھ میں تھے، اس کی بیوی ان دنوں نیویارک ائر پورٹ پر ہیروئن سمگل کرتے ہوئے پکڑی گئی تھی اور وہ خود شاہی قلعے میں اسلام کے لئے خدمات انجام دے رہا تھا، گائے جتنا تو پیٹ تھا اس کا،،،آئی ایس آئی کا ایک افسر میجر ولی بھی تشدد کےبہت ہنر جانتا تھا، چھتر مارنے،مارشل لاء مخالفین کو تیز روشنی میں ساری رات کھڑا رکھنے، بیڑی ڈنڈا لگانے،برف کی سل پر لٹا کر تفتیش کرنے جیسے کئ ہتھکنڈے ڈی آئی جی خواجہ احمد علی کو بھی آتے تھے،
جب میرے جیسے قیدی بے سدھ ہوجاتے تو انہیں 364 کے اقبالی یا اعترافی بیان کے لئے مجسٹریٹ درجہ اول سیف الملوک کی عدالت میں پیش کیاجاتا، مجھے فوجی حکومت نے جن نام نہاد الزامات پر چارج شیٹ کیا، ان کو قبول کرنا خود اپنے لئے سزائے موت تجویز کرنا تھا،میں ہتھکڑیوں میں مجسٹریٹ درجہ اول سیف الملوک کے سامنے کھڑا تھا، بدن لاغر ہو چکا تھا، سیف الملوک کے چہرے پر شاہی قلعے کے جلادوں کی طرح شیطانیت تھی، اس نے مجھ سے سوال کیا،،،،، کیا تم اپنے جرائم قبول کرتے ہو؟ کون سے جرائم؟ میرا جواب سن کر اس نے مجھے لانے والوں سے کہااس کا دماغ ابھی تک ٹھیک نہں ہوا، اسے واپس لے جاؤ، جب اس کا دماغ اچھی طرح ٹھیک کر لو تو پھر لے آنا اسے میرے پاس