Saturday 24 August 2013

علی بھائی

...... بہت سوچ بچار کے بعد فیصلہ کیا تھا ایم اسماعیل فلم ایوارڈز کے اجراء کا،، فلم نگر کے تمام شعبوں کے بڑوں کی آشیرباد حاصل تھی، آواری ہوٹل جو ان دنوں ہلٹن تھا، اس کا سوئمنگ پول بغیر ایڈوانس کے بک کرا لیا گیا،مہمانوں کیلئے اچھی ریفرشمنٹ کا خیال رکھا گیا، میوزک بینڈ سے بات ہو گئی ، وینس کی بھاری مورتیاں بنوائی گئیں جو پیتل کی تھیں ،خدیجہ مستور تقریب کی صدارت کے لئے آمادہ ہو گئیں،مہناز نے لائیو گانا تھا، پندرہ رکنی کمیٹی نے ایوارڈ یافتگان کے ناموں کو حتمی شکل دیدی، کمیٹی میں نہ میں تھا اور نہ میرا کوئی نمائندہ، سب کو پابند کر دیا گیا تھا کہ ونرز کو پہلے نہیں بتایا جائے گا، ہر ایوارڈ کے تمام نامزدگان کو دعوت دی جا رہی تھی، سب کچھ ٹھیک تھا ، لیکن ہلٹن ہوٹل کو دس ہزار روپے کس نے ادا کرنے تھے؟، اس کی میرے سوا کسی کو پریشانی نہ تھی، کیونکہ کسی کو علم ہی نہ تھا کہ ہوٹل کی فل پیمنٹ ابھی باقی ہے، تقریب سے ایک ہفتہ پہلے محمد علی صاحب کا ملاقات کے لئے پیغام ملا، وہ مجھے شروع سے ہی منا کہتے تھے، جب میں نے جیلیں کاٹ لیں، کوڑے کھا لئے تو انہوں نے خاور کہنا شروع کر دیا، میں علی بھائی سے انکے گھر ملنے گیا تو انہوں نے مجھے دیکھتے ہی سوال کر دیا،، منے اخراجات کون کر رہا ہے ،تمہاری تقریب کے؟ میں نے انہیں سچ سچ بتا دیا کہ باقی سب تو ہوگیا، ہوٹل کا خرچہ ابھی باقی ہے،، وہ بہت ہنسے، اور کسی کو فون کرنے لگے، فلم ایوارڈ کی بہت شاندار تقریب ہو رہی ہے، آپ نے اسپانسر کرنا ہے اسے، فون بند کرکے مجھے کہنے لگے کہ کوکاکولا ایکسپورٹ کے آفس جا کر زمان خان سے ملو، وہ میرا دوست ہے اور یہاں کنٹری مینجر ہے، یہ آفس گلبرگ میں نور جہان کی کوٹھی کے ساتھ تھا، زمان صاحب بڑے تپاک سے ملے، چائے پلانے کے بعد انہوں نے دس ہزار کا چیک مجھے تھماتے ہوئے کہا، ڈاکومنٹیشن بعد میں کر لیں گے،اپنی بیماری کے دنوں میں بھی وہ اچانک ملنے آ جاتے ، ان کا نواسہ ساتھ ہوتا جس سے وہ بہت پیار کرتے تھے انہی دنوں انہوں نے اپنا ایک گہرا راز بھی مجھ سے شئیر کیا ، میں نےعلی بھائی کےاس اعتماد پر فخر محسوس کیا آخری دنوں میں وہ اکثر فون کرتے کہ ان سے ملنے آؤں، کیا پتہ تھا ہمیشہ کے لئے چلے جائیں گے، علم ہوتا تو روزانہ جایا کرتا ، ایک رات آٹھ بجے کے قریب فون کرکے انہیں ملنے پہنچ گیا، مجھے گھر کے لان کے سامنے والے مہمان خانے میں بٹھایا، ان کی صحت اچھی نہیں تھی، علی بھائی چند منٹوں کے بعد کرسی سے اٹھے اور کچھ تلاش کرنا شروع کر دیا، وہ جو چیز بھی ڈھونڈھ رہے تھے انہیں مل نہیں رہی تھی، وہ ایک مقام پر اچانک رکتے اور خود کلامی کرتے،،، میں نے تو یہیں رکھا تھا بیماری کی حالت میں ان کی اس تگ و دو سے میں پریشان ہو رہا تھا،، علی بھائی، کیا وہ کوئی بہت ہی ضروری شے ہے ، جسے ڈھونڈنا ابھی لازمی ہے؟،، ہوں، بتاتا ہوں میں،، میں نے بہت مشکل سے انہیں اس کھوج سے روکا،، ان کے چہرے پر اداسی تھی،، جب میں واپسی کے لئے اٹھا تو انہوں نے نمناک آنکھوں سے الوداع کہتے ہوئے بتایا،، میرا ایک پرستار مجھے ایک تحفہ دے گیا تھا، وہ میں نے تمہارے لئے یہاں رکھ دیا، پتہ نہیں کون لے گیا، مجھے ملا ہی نہیں۔۔