Saturday 31 August 2013

قصہ کشتوں کی کمائی سے بننے والی ایک فلم کا

موصوف تھے تو حکیم لیکن کہلاتےڈاکٹر تھے،لائل پور کے جھنگ بازار میں بیٹھتے تھے، ،نام تھا ساحر قدوائی، شاعری کے میدان میں خود کو ساحر لدھیانوی کے ہم پلہ سمجھتے ،ساحر قدوائی کے بنائے ہوئے شربت، مربے اور کشتے بہت مقبول تھے،لاکھوں کی کمائی تھی صرف کشتوں اور شربتوں سے،ساحر قدوائی شادی شدہ اور بال بچےدار تھے،، ادھیڑ عمری میں ایک دراز قد،گوری چٹی تیکھے نینوں والی عورت ٹکرا گئی، جو خود بھی شادی شدہ اور جوانی کی دہلیز چڑھتی ہوئی بیٹی کی ماں تھی

،اس عورت سے ملاقات کے بعد حکیم ساحر قدوائی کےتو ہوش ہی نہیں طوطےبھی اڑ گئے، حکیم صاحب نے شادی کی پیشکش کی تو اس نازنین نےشرط یہ رکھ دی کہ حکیم صاحب ایک فلم بنائیں گے، جس کی ہیروئن وہ ہوگی۔ دس پندرہ لاکھ میں فلم بن جاتی تھی، حکیم صاحب کے لئے سودا مہنگا نہ تھا، اس خاتون نے پہلے شوہر سے طلاق لی اور بیٹی سمیت حکیم صاحب کے نکاح میں آ گئی، اب حکیم صاحب نے اپنا وعدہ وفا کرنا تھا،سوال یہ تھا کہ فلم بنائی کیسےجائے؟ کشتے اور شربت بنانے کی صلاحیت یہاں کام نہیں آنے والی تھی،ہاں کشتوں، مربوں اور شربتوں کی کمائی کا صحیح استعمال ضرور ہونے والا تھا۔ فلم بنانے کے لئے انہیں ملا انہی کے شہر کا،زاہدعکاسی جو لاہور میں ایک اخبار کا فلمی صحافی تھا ،اس نے فلمی صحافی بننے سے پہلے فلم لائن میں کافی دھکے کھائے تھے، حکیم صاحب نے عکاسی سے خفیہ معاہدہ یہ کیا کہ فلم تو ضرور بنے گی، مگر اس کی بیوی کو کسی نہ کسی طور ایکٹنگ سے دور رکھا جائے گا، عکاسی اس ٹاسک میں کامیاب رہا، حکیم کی بیوی کو اس بات پر آمادہ کر لیا گیا کہ وہ اس فلم کی پروڈکشن کی نگرانی کرے گی،شوٹنگز کے دوران ایکٹنگ سیکھے گی اور اگلی فلم کی ہیروئن خود ہوگی،عکاسی نے اپنے ایک لائلپوریے ساتھی وطنی کو فلم کی ڈائرکشن سونپی اور باقی کرتا دھرتا خود بن گیا، فلم کا نام رکھا گیا,گولڈن چانس، یہ واقعی فلمییریا زدہ اس گروپ کیلئے گولڈن چانس تھا،فلم کا سارا یونٹ عکاسی کے ارد گرد رہنے والوں پر مشتمل تھا۔ حکیم صاحب خود کبھی کبھار شوٹنگ پر آتے،سارے اختیارات ان کی جواں سال خوبرو بیوی کے ہاتھ میں تھے، حکیم صاحب کے نوٹوں سے فلم ہی شروع نہیں ہوئی، کئی اور پراجیکٹ بھی کھل گئے، ایک بڑا پراجیکٹ تھا عکاسی کے ساتھ ساتھ رہنے والے فوٹو گرافر کاشی کا جس نے حکیم صاحب کی بیوی کو اپنے عشق کے دام میں پھانس لیا، جوں جوں فلم بنتی گئی۔ یہ عشق بھی تکمیل کے مراحل طے کرتا رہا،حکیم صاحب کی کثیر سرمایہ کاری کے بعد فلم مکمل ہو کر سینما تک پہنچ گئی، یہ الگ بات کہ دوسرے شو میں سارے ہال خالی تھے، فلم کی ناکامی کے بعد زاہد عکاسی اور اس کے یونٹ کے سب لوگ تتر بتر ہو گئے، حکیم صاحب کنگلے ہو کر بستر سے جا لگے، پہلے خود مرے پھر جوان بیوی کو پاس بلا لیا، ہیروئن بننے کے جنون میں مبتلا ان کی دوسری بیوی فلم نگر کی سچائیوں کو جان چکی تھی، اسےعلم ہو چکا تھا کہ زاہد عکاسی کے دست راست فوٹو گرافر نے صرف اس سے نہیں اسکی بیٹی سے بھی پیچے لڑائے ہوئے تھے، فوٹو گرافر کاشی ایک دن اس کی بیٹی کو بھگا کر کراچی لے گیا، جہاں دونوں نے شادی کرلی ,اس لڑکی کانام شہلا تھا، فل انگریز تھی ، بس شراب سکھوں کی طرح پیتی تھی، فوٹو گرافر نے کچھ مہینوں بعد شہلا سے جان چھڑا لی تو وہ لاہور آ گئی ، ماں سے زیادہ سوہنی، گلبدن شہلا نائٹ پارٹیوں میں جانے لگی، وہ دیکھنے والوں کے ہوش اڑا دیا کرتی تھی، دو انتہائی گہرے دوستوں میں نفاق ڈلوانا ہو تو شہلا کو ساتھ بٹھادیں، ساری دوستی رفو چکر ہو جاتی ۔۔ کہتے ہیں کہ جوانی اور شراب کا نشہ ایک ہو جائے تو کوئی نہ کوئی حادثہ ضرور ہوتا ہے، یہاں یہی ہوا، شہلا ایک دن کار پر لاہور سےسلام آباد جاتے ہوئے ایکسیڈنٹ میں مر گئی۔ اور یوں حکیم صاحب کی کہانی   ختم ہوئی ۔۔