Tuesday 27 August 2013

مولوی بشیر گوتم سے گستاخی

70 کی دہائی میں مختلف اخبارات اور رسائل کے لئے لکھنا شروع کیا تو اس زمانے میں سب سے زیادہ شائع ہونے والا روزنامہ تھا،، مشرق،، اس کا آفس نسبت روڈ پر لیبر ہال کے قریب ہوا کرتا تھا، میں کبھی کبھی اپنے والد کے دوست اشرف طاہر صاحب کے پاس جا کر بیٹھ جاتا ، جو وہاں نیوز ایڈیٹر تھے، اشرف طاہر صاحب ٹی وی اداکارہ روبینہ اشرف کے
والد تھے،غلام محی الدین نظر مشرق میں بچوں کے صفحہ کے انچارج تھے، ان سے بھی سلام دعا ہوتی ، ان کی دبلی پتلی شخصیت بچوں کے کارٹون جیسی تھی، حسن رضا خان وہاں فلم پیج کے کرتا دھرتا تھے، فلموں میں ڈاکٹر یا وکیل جیسے کرداروں میں بھی دکھائی دیتے ، بہت کم گو اور نفیس آدمی تھے، حبیب جالب کی طرح ہمیشہ اپنا بستہ بغل میں رکھتے ، سارا دن چائے اور پان کھاتے رہتے اور شام ہوتے ہی پریس کلب یا کسی فلم اسٹوڈیو میں پینے پلانے پہنچ جاتے، ریاض بٹالوی مشرق کے فیچر رائٹر تھے، بہت نام تھا ان کا، ریاض بٹالوی صاحب نے فیچر نگاری کو ایک نرالا انداز دیا، وہ روزانہ گم ہو جاتے،اخبار میں اشتہار نما خبر چھپتی کہ جو قاری ریاض بٹالوی کا سراغ لگائے گا اسے انعام و اکرام سے نوازا جائے گا، کوئی بھی ریاض بٹالوی کو پکڑ نہ پاتا اور اگلے دن ان کی تصاویر چھپتیں، کبھی وہ ریلوے اسٹیشن پر قلی بنے ہوتے ، کسی دن ریڑھی پر قلفیاں بیچ رہے ہوتے، کبھی وہ ہاکر بنے اخبار بیچتے نظر آتے، اس لکن میٹی نے اخبار کو اور زیادہ مقبول بنا دیا تھا، روزنامہ مشرق سے چند قدم آگے ہفت روزہ ،، مصور،، کا دفتر تھا، یہ فلمی رسالہ بڑی تعداد میں چھپتا تھا، نذیر ناجی صاحب اور حسن نثار بھی اس میں لکھا کرتے تھے، ہفت روزہ نصرت کے مالک تھے شہزادہ عالمگیر، ایک خوبصورت خاندانی آدمی،عمر تیس پنتیس سال سے زیادہ نہ تھی، شہزادہ عالمگیر کا چھوٹا بھائی تھا، شاہ زیب ،دلیپ کمار اسٹائل کٹنگ، وحید مراد جیسا لباس، درپن جیسی وجاہت،جب یہ ٹھان لی گئی کہ شاہ زیب کو فلمی ہیرو بنانا ہے تو رسالے کے سر ورق پر ہر ہفتے اسی کی تصویر چھپنے لگی، اس زمانے کی ہر ہیروئن کے ساتھ اس کی ماڈلنگ کرائی گئی، کئی مہینوں کی کاوشوں کے باوجود شاہ زیب کو کسی پروڈیوسر ، ڈائریکٹر نے سائن نہ کیا تو ایک دوسرا راستہ نکالا گیا،، ریاض بٹالوی اسٹائل راستہ،، شاہ زیب کے بارے میں ہفت روزہ مصور میں اشتہار چھپنے شروع ہوگئے کہ وہ سارا دن کسی نہ کسی بہروپ میں لاہور شہر کی سڑکوں پر رہے گا ۔ جو اسے پہچان لے، ڈھونڈھ نکالے اسے قیمتی انعامات ملیں گے، میں یہ اشتہار ہر ہفتے دیکھتا اور سوچتا کہ کتنا گھٹیا طریقہ ہے، شاہ زیب کو زبردستی فلمی ہیرو بنانے کا، ایک دن کیا ہوا ؟ میں لکشمی چوک میں کھڑا بک اسٹال پر مصور میں شاہ زیب کی گمشدگی کا نیا اشتہار پڑھ رہا تھا کہ اچانک مجھے ایک ایکٹر نظر آیا، فلمی نام تھا اس کا گوتم ، وہ فلموں میں چھوٹے چھوٹے رول کیا کرتا تھا ، مگر اس کا اٹھنا بیٹھنا سیف الدین سیف اور حسن طارق جیسے بڑے لوگوں کے ساتھ تھا، وہ اکثر کنگ سرکل کے اندر یا حیدر پان شاپ پر دکھائی دیتا تھا، گوتم کو دیکھ کر ایک زبردست آئیڈیا میرے دماغ میں گونجا، میں فورآ روزنامہ مساوات کے دفتر پہنچا اور ایک کالم لکھ ڈالا، ۔۔۔۔کالم کی سرخی تھی، شاہ زیب اداکار گوتم کی بیٹھک سے برآمد،میں نے مصور کےمالکان، شاہ زیب کے وارثان اور فلمی جریدے کے قارئین کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے لکھا کہ چونکہ شاہ زیب کو ادھیڑ عمر ایکٹر کی بیٹھک سے بازیاب کرا لیا گیا ہے، اس لئے امید کی جاتی ہے کہ پولیس نہ صرف شاہ زیب کا طبی معائنہ کرائے گی بلکہ ایک خوبصورت، نو عمر نوجوان کو اغواء کرنے اور حبس بے جا میں رکھنے کے الزام میں گوتم کے خلاف مناسب کارروائی بھی کرے گی۔۔کالم چھپ گیارات کو گھر پہنچا تو ابا جی انتہائی غصے کے عالم میں میرے منتظر تھے، مجھے دیکھتے ہی ان کا پہلا جملہ تھا، الو کے پٹھے یہ تم نے کیا لکھ دیا؟ اور ، اور بہت سی گالیاں۔۔۔