Wednesday 28 August 2013

سو ڈالر کا نوٹ

نام تھا اس کا نوید بٹ ،، کوئی،، خوبی،، ایسی نہ تھی جو اس میں نہ ہو، تعلق تو اچھے خاندان دے تھا، مگر استاد مل گیا تھا اسے روزنامہ مشرق کا جانا مانا کرائمز رپورٹر افتخار مرزا، ایک ایسا رپورٹر جس نے پولیس کو صحافیوں کے جائز،ناجائز کام کرتے رہنے کا گر بتایا تھا، صحافی ہاتھ میں ہوں تو سمجھ لیں ہر شہری آپ کی رعیت ہے، یہ فلاسفی آجکل تو تقریبآ سو فیصد چل رہی ہے، روزانہ بندے مار دو ، میڈیا خود ثابت کر دے گا کہ مقابلہ اصلی تھا، نوید بٹ زیادہ پڑھا لکھا نہیں تھا لیکن تھا بلا کا چالاک، ہوشیار،زیرک ،، کسی بھی مجلس میں کسی بھی موضوع پر بات ہو رہی ہو وہ اس TOPIC کا ماسٹر بن جاتا ، وہ رحمت شاہ آفریدی کے اخبار ،، فرنٹئیر پوسٹِ، کا چیف بھی بن گیا تھا لاہور میں، بات بات میں ڈاکٹر مبشر حسن اور منیر ڈار کے،، اقوال زریں،، کے حوالے دیا کرتا ، صحافت شروع کی اس نے شیخ شفاعت کے روزنامہ ، مغربی پاکستان، سے ، اس اخبار میں نوکری کے لئے کسی اجازت یا اپوائنٹمنٹ لیٹر کی ضرورت نہیں ہوا کرتی تھی ، آپ جائیں مرضی کا عہدہ حاصل کرلیں، اسی اخبار کا ایک ویکلی فلمی رسالہ بھی تھا،،اجالہ،، ایک دور میں یہ رسالہ ہر اسٹال پر نظر آتا تھا، نوید بٹ کرائم رپورٹنگ کے ساتھ اس فلمی جریدے کا ایڈیٹر بھی بن گیا، اس نے بازار حسن کی ایک لڑکی کی تصویر رسالے کے ٹائٹل پر چھاپی، پھر اس لڑکی کے گھر ٹیلی فون لگوایا، اس دور میں پی ٹی سی ایل کے کنکشن کے لئے کئی کئی سال لگ جاتے تھے، نوید بٹ اس لڑکی کے کوٹھے کا مستقل مفت بر گاہک اور محافظ بن گیا ،نوید بٹ کی ایک دن اس لڑکی سے لڑائی ہو گئی جس کے گھر اس نے ٹیلی فون لگوایا تھا، اس نے اسی گلی کی دوسری لڑکی کے گھر یہ کنکشن ٹرانسفر کرا لیا، بتانے والے بتایا کرتے تھے کہ اس فون نے تیس سے زیادہ گھروں کا سفر کیا تھا۔ اور اس نے کئی سینئیر بااثرصحافیوں اور سیاستدانوں کو بھی اس گلی کی راہ دکھائی، 1973 میں میرا پہلا باضابطہ واسطہ پڑا نوید بٹ سے ، کراچی میں، مساوات اخبار میں ، وہ بہت شاندار طریقے سے رہ رہا تھا، اس جیسا ایک اور بھی تھا وہاں سلیم رضا، جو شعبہ اشتہارات کا ہیڈ تھا،نوید بٹ رات کو کلبوں کی رنگینیاں بھی انجوائے کرتا، ایک رات اس نے مجھے ڈنر کی دعوت دی اور ہوٹل پہنچ کر مجھ سے سو روپے ادھار مانگ لئے، ساڑھے چار سو روپے تنخواہ تھی میری، مہینے کا آخری ہفتہ تھا اور میرے پاس یہی آخری پیسے تھے، میں نے اس شرط پر پیسے دیدیے کہ وہ اگلی صبح واپس لوٹا دے گا ، اگلے روز میں آفس میں اس کا منتظر رہا ، رات ہوگئی اور وہ نہ آیا، پوچھ گچھ کی تو علم ہوا کہ وہ تو لاہور پہنچ چکا ہوگا، اس نے اپنا تبادلہ کرا لیاتھا اور اس بات سے میں واقف نہ تھا۔ دوسری واردات نوید بٹ نے کی جب وہ فرنٹئیر پوسٹ کے لاہور آفس کا ہیڈ، ان دنوں میں پنجاب یونین آف جرنلسٹس کا صدر تھا،مارشل لاء والے مجھ سے زیادہ ہی ناراض تھے، رحمت خان آفریدی میرے بہت معتقد تھے ، انہوں نے مجھے کوئینز روڈ پر اپنے آفس میں یونین کے لئے ایک کمرہ دے رکھا تھا،،لاہور میں بی ڈی ایم ہونا تھا، پی یو جے میزبات تھی، مختلف صوبوں اور شہروں سے آنےوالے سو ڈیڑھ سو صحافیوں کو ہوٹلوں میں ٹھہرانے ، ان کے کھانے پینے اور گاڑیوں کا انتظام ہمارے ذمے تھا، میں ذاتی طور پر یونین کے لئے چندہ لینے کا مخالف ہوں، اس طرح کرپشن کے بہت سے دروازے کھلتے ہیں، نوید بٹ نے میری پریشانی دیکھ کر پوچھا کہ کتنے پیسوں کی ضرورت پڑے گی؟ ایک لاکھ کے قریب ، لیکن چاہتا ہوں کہ کوئی ایک دوست ساری ذمے داری اٹھا لے، اگلے دن نوید بٹ نے مجھے 25ہزار روپے دیے اور کہا کہ باقی انتظام بھی ہوجائے گا، میرا بوجھ ہلکا ہو گیا ، اسی شام میں گنگا رام اسپتال کے قریب کھڑا تھا، کہ ایک دیرینہ دوست نے گاڑی میرے قریب روکی، پیسے مل گئے؟اس دوست کا سوال تھا۔کون سے پیسے؟ نوید بٹ نے فون پر کہا تھا کہ آپ کو پچاس ہزار چاہئیں ، میں نے بھجوا دیے تھے۔ مساوات اخبار کا دفتر جب بھاٹی سے منٹگمری روڈ منتقل ہوا تو وہاں غزالہ نامی ایک لڑکی ٹیلی فون آپریٹر بھرتی ہوئی ، اس سے پہلے سجاد اور اس کا بھائی یہ کام کر رہے تھے، ان دونوں کا زیادہ دوستانہ تھا فوٹو گرافر طاہر سے، غزالہ کو زیادہ دیر نہ لگی ایڈجسٹ ہونے میں، وہ ہر وقت ہنسی مذاق کرنے والی لڑکی تھی، دفتروں میں کام کرنے والے سب لوگوں کے سارے کھاتے کھلے ہوتے ہیں ٹیلی فون آپرپیٹروں کے پاس ، آپریٹرز کا کیبن سیڑھیوں کے نیچے تھا، رپورٹرز، سب ایڈیٹرز، ، ایڈیٹر ، ایڈیٹوریل اور میگزین سیکشن والے سب لوگ ٹیلی فون آپریٹرز کے سامنے سے گزر کر اوپر جایا کرتے تھے، ایک دن غزالہ نیلی ساڑھی پہن کر آئی، وہ ہر گزرنے والے کو ساڑھی دکھانے کیبن سے باہر آتی، کیسی لگ رہی ہوں ۔ ،اچھا اب مجھے پیچھے سے دیکھ کر بتاؤ۔۔۔۔۔۔وہ اس ٹائپ کی حرکت بھولپن سے بزرگ لوگوں سے بھی کر جاتی تھی۔پھر ایک رات پتہ چلا کہ نوید بٹ اور غزالہ نے شادی کر لی ہے۔غزالہ نے نوکری چھوڑ دی ، نوید بٹ ان دنوں ایک،، بااثرِ،، صحافی تھا، غزالہ جانتی تھی کہ اس نے اب کیا کرنا ہے، سنا گیا کہ نوید بٹ باپ بن گیا ہے، نوید بٹ نے اب مکان خرید لیا ہے ، غزالہ نے طلاق لے کر نوید بٹ کے ہی ایک دوست سے شادی کر لی ہے،، پھر اس آدمی کو بھی چھوڑ کر دوبارہ دونوں نے بیاہ کر لیا ہے، پھر یہ لوگ کینیڈا شفٹ ہوگئے، ایسی کئی کہانیاں سننے کو ملتی رہیں،1995.. نوید بٹ اچانک میرے گھر آگیا، وہ نوکری کی تلاش میں تھا، اس کا خیال تھا کہ میں اسے ملازمت دے سکتا ہوں ، میں نے ہوں ہاں سے ٹالنے کی کوشش کی لیکن اس نے روزانہ سہ پہر میرے گھر آنا شروع کر دیا ، میرے لئے اس سے جان چھڑانا مشکل ہو رہا تھا، وہ کہتا تھا کہ میرے پاس رکشہ میں بیٹھ کر آتا ہے ، میرے آفس جانے کا وقت ہوتا تھا، میں اس کے سامنے تیار ہوتا ، اسے راستے میں ڈراپ کرتا، عجیب مشکل آن پڑی تھی ، ایک دن اس نے کہا کہ اسے نماز کے لئے وضو کرنا ہے، میں نے اسے باتھ روم کا راستہ تو دکھا دیا، لیکن ڈر بھی گیا ، میرا لباس باتھ روم میں لٹکا ہوا تھا، دو ماہ پہلے میں اپنے بھائی کے پاس امریکہ گیا تھا اور بچ جانے والے 700 ڈالرجیب میں ہی رکھے تھے ، وہ کافی وقت لگا کر باہر نکلا تو میں نے جلدی سے باتھ روم جاکر دروازہ بند کر لیا، جیب میں 700نہیں600 ڈالر تھے، میں بٹوہ ہاتھ میں لئے کمرے میں واپس آیا تو وہ میرے بیڈ کے پیچھے سجدے میں تھا ، میں نے بٹوہ اس کے آگے رکھ دیا ، میرا خیال تھا کہ اسے شرم آئے گی، نماز ختم ہو گئی ، ظایرآ اس نے بٹوہ دیکھا ہی نہیں ، دونوں جانب خاموشی تھی، ہم گھر سے نکلے، اسے راستے میں ڈراپ کیا اور میں آفس پہنچ گیا۔ اس کے بعد وہ مجھے کبھی ملا ہی نہیں۔۔